کورونا وائرس دسمبر میں ہی امریکا پہنچ چکا تھا، تحقیق
امریکا میں نوول کورونا وائرس کے مقامی سطح پر پھیلنے والے کیسز فروری کے آخر میں سامنے آئے تھے مگر اپریل میں بتایا گیا تھا کہ یہ بیماری وہاں جنوری میں پہنچ چکی تھی۔مگر ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ درحقیقت یہ بیماری وہاں اندازے سے پہلے پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔جریدے جرنل آف میڈیکل انٹرنیٹ ریسرچ میں شائع تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس امریکا میں دسمبر کے آخر میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 22 دسمبر سے امریکا کے مختلف طبی مراکز اور ہسپتالوں میں نظام تنفس کی بیماری کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔محققین نے یہ دریافت یو سی ایل اے ہیلتھ سسٹم کے ایک کروڑ میڈیکل ریکارڈز کا جائزہ لینے کے بعد کی جس میں 3 ہسپتال اور 180 طبی مراکز شامل تھے۔اس سے پہلے امریکا میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس جنوری میں اس وقت آیا تھا جب ووہان سے واشنگٹن آنے والے ایک شخص میں 19 جنوری کو اس کی تشخیص ہوئی۔مگر مقامی سطح پر اس کا پھیلاؤ جنوری کے آخر یا فروری میں کسی وقت شروع ہوگیا تھا۔جریدے لانسیٹ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق چین میں کووڈ 19 کا پہلا مصدقہ کیس یکم ستمبر کو سامنے آیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مریض نومبر میں ہی اس بیماری کا شکار ہوکا تھا۔کھ تحقیقی رپورٹس میں کچھ شواہد دریافت کیے گئے جن کے مطابق یہ وائرس یورپ میں دسمبر یا اس سے پہلے گردش کررہا تھا۔اب اس نئی تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر جوآن ایلمور کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس ریکارڈ کا جائزہ اس وقت لینا شروع کیا جب مارچ میں ان کے طبی مرکز کے پریشان مریضوں کی جانب سے مسلسل ای میلز کی گئیں۔یہ مریض مسلسل پوھ رہے تھے کہ کیا جنوری میں جو انہیں کھانسی تھی وہ کووڈ 19 کی وجہ سے تو نہیں تھی۔اس پر کیلیفورنیا یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر نے تحقیق کا آغاز کیا۔محققین نے دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران نظام تنفس کے کیسز میں اضافے کو دیکھا جبکہ اس دوران کھانسی کے بارے میں سرچز بھی بڑھ گئیں۔انہوں نے اس دریافت کا موازنہ گزشتہ 5 سال کے ریکارڈز سے کیا تو دریافت ہوا کہ عام معمول کے مقابلے میں کھانسی کی شکایت کے ساتھ آنے والے مریضوں کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا، یعنی اوسطاً عام حالات کے مقابلے میں ایک ہزار زیادہ مریض علاج کے لیے آئے۔اسی طرح نظام تنفس کی شکایت کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی تعاد کی شرح میں بھی گزشتہ 5 سال کے مقابلے میں دسمبر 2019 سے فروری 2020 کے دوران اضافہ دیکھنے میں آیا۔محققین کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ کیسز ممکنہ طور پر فلو کے تھے جبکہ دیگر کی وجوہات الگ تھیں، مگر اس دورانیے میں اتنے زیادہ میں کیسز قابل توجہ ضرور ہیں۔اگرچہ اس بات کو اب ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ مریض کووڈ 19 کے ابتدائی کیسز تھے مگر محققین کے خیال میں اس سوال کی ضرورت ہی نہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری دنیا اب آپس میں جڑی ہوئی، ہر ماہ چین سے 5 سو پروازیں صرف لاس اینجلس ایئرپورٹ پر اترتی ہیں، تو ایک یا 2 کیسز اس طرح آسانی سے آکر مقامی برادری میں شامل ہوسکتے ہیں۔محققین کو توقع ہے کہ اس تحقیق سے کووڈ 19 کے رئیل ٹائم ڈیٹا کو دکھایا جاسکے گا اور ماہرین کے لیے مستقبل میں امراض کو پھیلنے سے روکنے یا اس کی رفتار سست کرنے میں مدد مل سکے گی۔اس سے پہلے جون کے آخر میں اسپین کے طبی ماہرین نے ایک تحقیق میں بتایا تھا کہ انہوں نے اس وائرس کے آثار مارچ 2019 میں اکٹھے کیے گئے نکاسی آب کے نمونوں میں دریافت کیے ہیں، یعنی دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں اس کے پھیلنے سے 9 ماہ قبل۔جون میں اٹلی کے سائنسدانوں نے بھی میلان اور تورین کے نکاسی آب کے نمونوں میں دریافت کیا تھا کہ کورونا وائرس دسمبر کے وسط میں وہاں موجود تھا، جبکہ وہاں پہلا کیس فروری میں سامنے آیا تھا، جبکہ ماہرین نے برازیل میں اس وائرس کے آثار نومبر میں دریافت کیے تھے۔اپریل میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گزشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی بنیاد ڈھونڈنے پر کام ہورہا ہے اور تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس پہلے فرد کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو اس وائرس کا پہلا شکار بنا، جس کے بعد یہ آگے پھیلنا شروع ہوا۔وائرس کے پھیلنے کے نیٹ ورک کا تجزیہ کرنے کے دوران وہ اب تک اس کے لیے پھیلائو کا چارٹ بشمول جینیاتی تبدیلیاں جاننے میں کامیاب ہوچکے ہیں یعنی کیسے یہ وائرس چین سے آسٹریلیا، یورپ اور باقی دنیا تک پھیلا۔اس تحقیق کے دوران اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 1 ہزار سے زائد مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا۔بعد ازاں جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا اور ٹائپ اے ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا۔ٹائپ اے کو چینی اور امریکی شہریوں میں دریافت کیا گیا جس کا تبدیلیوں والا ورڑن آسٹریلیاں اور امریکا تک پہنچا۔تحقیق کے مطابق ووہان میں زیادہ تر کیسز میں ٹائپ اے وائرس نظر نہیں آیا بلکہ ٹائپ بی وائرس متحرک تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کسی ایونٹ سے یہ بدلنا شروع ہوا۔ٹائپ سی ورڑن ٹائپ بی کے بطن سے نکلا جو یورپ کے ابتدائی کیسز میں نظر آیا جبکہ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی اس کے مریض تھے مگر چین میں اس کے آثار نہیں ملے۔محققین کے مطابق جمع شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا 13 ستمبر سے 7 دسمبر کے دوران پھیلنا شروع ہوئی اور اس کی بنیاد وائرس میں تبدیلیوں کی شرح کی رفتار ہے۔تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وقت کا تخمینہ غلط بھی ہوسکتا ہے مگر فی الحال یہی تخمینہ درست لگتا ہے، اس حوالے سے مزید مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر فورسٹر کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس وبا کے آغاز ووہان سے نہیں ہوا کیونکہ وہاں تمام مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا، البتہ ووہان سے 500 میل دور واقع صوبے گوانگ ڈونگ میں 11 میں سے 7 جینومز میں ٹائپ اے کو دیکھا گیا، یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ وبا کے ابتدائی مرحلے کے جینومز کی تعداد بہت کم تھی۔وائرس کی اصل بنیاد کی شناخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ آئندہ ایسا ہونے سے بچا جاسکے اور اس سے یہ معلوم ہوگا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جس کی وجہ سے کووڈ 19 پھیلا۔سائنسدانوں نے پہلی بار اس وائرس کی بنیاد جاننے کے لیے قدم زمانے کے انسانوں کی ہجرت کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے وائرس کے پھیلائو کو ٹریک کیا۔اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔یہ بات ساتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی۔چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا۔اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی۔27 دسمبر کو ہوبے پرویڑنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلا? کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔