پیلے: فٹبال کا وہ کھلاڑی جس نے ایک قوم کو متحد کیا

برازیلیا،دسمبر۔پیلے کی وفات کی خبر سن کر ساؤ پاؤلو میں ایلبرٹ آئن سٹائن ہسپتال میں ان کے مداح اکٹھے ہو رہے ہیں۔ کئی نے 10 نمبر کی شرٹس پہن رکھی تھیں جو پیلے دوران کھیل پہنا کرتے تھے۔ہسپتال کے باہر ایک بینر آویزاں کیا گیا ہے جس پر ’امر شہنشاہ پیلے‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جس کی برازیلین لوگوں کے لیے متوقع تو تھا لیکن یہ ان کے لیے درد ناک بھی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں، پیلے کی بیٹی کیلے ناسیمینٹو اپنے والد کے مداحوں کو ان کی حالت کے بارے میں اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا۔ لوگ ان کی ہر پوسٹ اور سٹوری کو فالو کیا جاتا تھا۔جب آخرکار پیلے کے گزر جانے کی خبر آئی تو یہ لوگوں کے لیے ایک بڑا لمحہ تھا۔ ہسپتال نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس کی بڑی آنت کے کینسر کے باعث ایک سے زیادہ اعضا کی ناکامی کے بعد ان کی موت کی تصدیق کی گئی تھی لیکن یہ صرف ایک طبی خبر سے زیادہ تھا، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتال ’فٹ بال کے شہنشاہ‘ کو کھونے پر ان کے خاندان اور عوام کے دکھ میں شریک ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ برازیلیوں کے لیے کتنے اہم تھے، اگرچہ پیلے یقیناً دنیا بھر میں فٹبال کے لیجنڈ تھے تاہم وہ یہاں کے لوگوں کے لیے، وہ بہت زیادہ تھے۔برازیل کے نومنتخب صدر، لوئیز اناسیو لولا دا سلوا، جو اتوار کو حلف اٹھانے والے ہیں، انھوں نے کہا کہ انھیں پیلے کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، انھوں نے مزید کہا کہ یہ محض ’کھیل‘ نہیں تھا، یہ ایک ’شو‘ تھا۔انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’اگرچہ کچھ برازیلیوں نے ہمارے ملک کا نام اتنا ہی روشن کیا جتنا انھوں نے کیا تھا لیکن ان جیسا 10 نمبر پھر کبھی نہیں بنا۔‘ہر برازیلین کے لیے پیلے معنی رکھتے تھے۔ پرانی نسلوں نے انھیں ایک کھلاڑی کے طور پر یاد کیا، نوجوان برازیلیوں کو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں بتایا گیا لیکن انھوں نے اس فٹ بالنگ قوم میں لوگوں کو متحد کیا۔ان کی حالت خراب ہونے کے بعد گذشتہ چند ہفتوں کے دوارن برازیلیوں نے ان کی زندگی کے بارے میں بہت زیادہ بات کی۔ یہاں تک کہ فٹ بال میں کوئی دلچسپی نہ رکھنے والے لوگ بھی انھیں بادشاہ کہتے ہیں۔وہ ایک ایسے فٹ بالر تھے جو صرف برازیل کے ہو کر رہے، بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے بجائے کئی سالوں تک سانٹوس کے لیے ہی کھیلتے رہے۔درحقیقت، صدر جانیو کواڈروس نے 1961 میں انھیں ایک قومی خزانہ بھی قرار دیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ برسوں تک انھیں بیرون ملک کلبوں کے لیے کھیلنے کے لیے ’برآمد‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی ہیرو والی حیثیت اور اہمیت ایک قومی فخر تھی۔ایک ایسے ملک میں جہاں نسل پرستی اور طبقاتی تعصب اب بھی غالب ہے، پیلے ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام فٹبالر کی کامیابی کی ایک ناقابل یقین کہانی تھے۔ انھوں نے نسل پرستی کے بارے میں شاذ و نادر ہی بات کی، ایک ایسا موقف جس کی وجہ سے انھیں بعض اوقات تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن انھوں نے ملک کو متحد کرنے اور غریب ترین برازیلیوں کو بھی مواقع فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ فٹ بال کی طاقت کو استعمال کیا۔پیلے نے کبھی سیاست میں دلچسپی نہیں لی اور اس پر بھی بہت سے لوگوں کو لگا کہ اتنا زیادہ زیادہ اثر و رسوخ ہونے کے باوجود یہ ان کا ایک کمزور پہلو تھا اور یقیناً وہ ہنگامہ خیز سیاست جس سے وہ گزرے، بشمول ایک آمریت کے۔ایک ایسے ملک میں جہاں لیکن ایک ایسا ملک کو سیاست کے منقسم تھا انھوں نے خود کو سیاست سے بالاتر کر دیا، انھیں میدان میں اور میدان سے باہر تمام برازیلیوں کے بادشاہ کے طور پر عالمی سطح پر پیار اور احترام ملا۔اب تک کے سب سے بڑے فٹبالر اب چلے گئے لیکن برازیل میں ان کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی۔

Related Articles