طالبان کا لڑکیوں کی تعلیم سے انکار شریعت سے متصادم ہے: جامعہ الازھر
قاہرہ ،دسمبر۔شیخ الازہر احمد الطیب نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین سے متعلق دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کا فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔انہوں نے کہا جامعہ الازہر کو افغان لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کے لیے افغان حکام کے فیصلے پر گہرا افسوس ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو اسلامی قانون کے خلاف ہے۔ مردوں اور عورتوں کو مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کے واضح مطالبے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کی دعوت نے اسلام کی سائنسی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں باصلاحیت خواتین میں عظیم ذہن پیدا کیے ہیں اور یہ آج بھی ہر اس مسلمان کے لئے باعث فخر بات ہے جو اللہ اور رسول اور شریعت کا وفادار ہے۔شیخ االازھر نے سوال کیا کہ اس فیصلے کے ماخذوں سے اہل سنت کی مستند ترین کتابوں میں موجود دو ہزار سے زائد احادیث کیسے چھوٹ گئیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مومنین کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہیں؟انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ یہ لوگ سائنس، تعلیم، سیاست، اور اسلامی معاشروں کے عروج و زمانہ، ماضی اور حال کے میدانوں میں پیش پیش خواتین اور مردوں کی مسلمانوں کی تاریخ کو کیسے بھول گئے؟چونکا دینے والا فیصلہ:مزید برآں شیخ الازھر نے کہا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ضمیروں کے لیے یہ چونکا دینے والا فیصلہ کسی مسلمان کی طرف سے جاری نہیں ہونا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ جامعہ الازہر کے علمائے کرام جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں کے ساتھ ملکر ہم طالبان کے اس فیصلے کی تردید کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ہم اسے ایسا فیصلہ سمجھتے ہیں جو شریعت اسلامیہ کی نمائندگی نہیں کرتا اور قرآن کریم کی دعوت سے یکسر متصادم ہے۔جامعہ الازہر کے شیخ نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اس عقیدہ، خیال یا وہم سے خبردار کیا جس کے مطابق عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم دینا حرام ہے۔
طالبان نے جواز پیش کیا:شیخ الازھر نے افغانستان کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور کہا کہ ہم سب کو یہ یاد دہانی کرنی چاہیے کہ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے کوئی چیز ہمارے کام نہیں آئے گی، نہ پیسہ، نہ عزت اور نہ سیاست۔یاد رہے منگل کو افغان طالبان نے افغان خواتین پر مزید پابندیوں کی جانب نیا قدم اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم پر پابندی لگانے کا فیصلہ تھا۔اس فیصلے سے ملک کو دھچکا لگا اور اس کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی ہے۔ طالبان نے اپنے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ طالبان حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر ندا محمد ندیم نے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکم نامہ اس لئے جاری کیا گیا ہے تاکہ مردوں اور خواتین کے درمیان اختلاط سے بچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیوں میں کچھ مضامین کی تعلیم بھی دی جارہی ہے جو اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔