کرکٹ میں اب بھی نسل پرستی کے اسکینڈل سے انکار کیا جاسکتا: عظیم رفیق
لندن، دسمبر ۔پاکستان نژاد یارکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق نے دعویٰ کیا ہے کہ کرکٹ میں اب بھی نسل پرستی کے اسکینڈل سے انکار کیا جارہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق انگلینڈ میں رہنے کے دوران کرکٹ میں نسلی ہراسانی کا سامنا کرنے پر گزشتہ برس نومبر میں ثبوت دینے کے بعد عظیم رفیق پہلی بار ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹ سلیکٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ۔31 سالہ عظیم رفیق نے کمیٹی کے سامنے اپنے پیشے میں اس بدسلوکی کو اجاگر کیا جس کی وجہ سے انہیں اور ان کے اہل خانہ نے ہراسانی کا سامنا کیا۔ عظیم رفیق نے کہا کہ اگر میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر گزشتہ 13 مہینے پر نظر ڈالتا ہوں تو جو کچھ بدلا ہے وہ یہ ہے کہ مجھے اور میرے خاندان کو ملک سے نکال دیا گیا اور یہ ایک افسوسناک امر ہے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں پیدا ہونے والے عظیم رفیق گزشتہ ماہ اپنے خاندان کے ساتھ انگلینڈ چھوڑ آئے تھے، تاہم انہوں نے کمیٹی کے سامنے خود سے ہونے والے بدسلوکی کی واقعے کو بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس بدسلوکی میں ایک ایسا گھناؤنا عمل بھی شامل تھا کہ ایک شخص ان کے والدین کے گھر کے باہر رفع حاجت کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ ’میں یہاں آکر آپ کو بتانا پسند کروں گا کہ کرکٹ کتنی تبدیل ہو چکی ہے مگر بدقسمتی سے محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ اس سے انکار کرنے میں مصروف ہے۔‘انہوں نے کہا کہ لوگوں کا ایک گروہ اب بھی موجود ہے جو سمجھتا ہے کہ کرکٹ اس کا شکار ہے۔ عظیم رفیق نے کہا کہ جس طرح میرے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور مجھے نشانہ بنایا گیا، آپ اس پر کیوں بات کریں گے، مجھے انگلینڈ کرکٹ کی نئی قیادت سے کچھ امید ہے۔انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کی جانب سے تفتیش کے بعد جون 2022 میں کلب اور کلب سے جڑے کئی عہدیداروں پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی، تاہم کرکٹ ڈسپلن کمیشن ابھی یہ دیکھے گی کہ آیا اس کی سماعت پبلک ہونی چاہیے یا نجی طور پر۔ خیال رہے کہ عظیم رفیق نے یارکشائر کی جانب سے دو مرتبہ کھیلنے کے حوالے سے ستمبر 2020 میں پہلی مرتبہ نسل پرستی اور ہراساں کیے جانے کے الزامات عائد کیے تھے۔ قبل ازیں ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ اسپورٹ سلیکٹ کمیٹی کی سماعت میں یارکشائر کے سربراہ کملیش پٹیل نے انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی سابق قیادت پر الزام عائد کیا کہ کاؤنٹی میں کی گئی اصلاحات پر ان کی حمایت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کملیش پٹیل نے نومبر 2021 میں یارکشائر کا عہدہ سنبھالا تھا جہاں عظیم رفیق کے الزامات کا ازالہ نہ کرنے پر کاؤنٹی سے بین الاقوامی میچوں کی میزبانی کے حقوق چھین لیے گئے تھے۔ کملیش پٹیل کو اس لیے عہدے پر لایا گیا تھا کہ وہ کاؤنٹی کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے اصلاحات کریں مگر کلب کی سابق قیادت سے ان کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے کہا اگر پریس میں مجھ پر حملہ کیا جاتا یا کرکٹ کی موجودہ یا سابق قیادت نے غیر مصدقہ بیانات دیئے ہوتے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ’ میں نے متعدد ای میل اور خطوط لکھے کہ آپ نے مجھے جو کرنے کو کہا وہ میں نے کیا اب میری حمایت میں آئیں مگر مجھے کسی بھی ای میل یا خط کا جواب نہیں ملا جو کہ بہت پریشان کن عمل تھا۔’انہوں نے مزید کہا کہ میں رچرڈ تھامسن کی نئی قیادت کا منتظر ہوں اور ان کے ساتھ چند ملاقاتیں مثبت رہی ہیں جن سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تاہم اس سوال پر کہ آیا کہ پچھلے 12 ماہ میں انہیں کرکٹ بورڈ کی حمایت ملی یا نہیں، انہوں نے کہا کہ ’نہیں‘۔ عظیم رفیق نے یارکشائر پر الزام لگایا تھا کہ کاؤنٹی کلب یارکشائر ان کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات سے مناسب طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہا تھا۔آف اسپنر عظیم رفیق نے پہلی بار ستمبر 2020 میں نسل پرستی کے حوالے سے یارکشائر پر الزامات عائد کیے تھے۔الزامات لگانے کے ایک سال بعد کلب کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ سابق کھلاڑی نسلی ہراسگی کا شکار ہوئے ہیں۔اس کے بعد اگلے مہینے کلب نے تصدیق کی تھی کہ کہ کسی کے خلاف بھی انضباطی کارروائی نہیں کی جائے گی، اس فیصلے پر بڑے پیمانے پر عدم اعتماد کیا گیا تھا۔ یارکشائر پر دباؤ بڑھنے کے سبب یارکشائر کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو نے نومبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد پورے کوچنگ اسٹاف نے کلب چھوڑ دیا تھا۔اس مہینے کے اوائل میں یارکشائر کے سابق کوچ اینڈریو گیل نے غیرمنصفانہ برطرفی کا دعویٰ جیت لیا تھا جس کے سبب کلب کو زرتلافی کے لیے خطیر ادائیگی کرنے کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے سابق کھلاڑی عظیم رفیق نے یارکشائر پر الزام لگایا تھا کہ کاؤنٹی کلب یارکشائر ان کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات سے مناسب طریقے سے نمٹنے میں ناکام رہی تھی اور وہ خودکشی کرنے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ ان الزامات کے بعد یارکشائر کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو نے نومبر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور رواں ماہ کے اوائل میں پورے کوچنگ اسٹاف نے کلب چھوڑ دیا تھا۔