کیا آپ کو معلوم ہے کہ موگلی کا کردار کس حقیقی شخصیت سے متاثر ہے؟
لندن،اکتوبر۔ایسا کونسا فرد ہوگا جس نے جنگل بک فلم یا کارٹون میں موگلی کے کردار کے بارے میں سنا نہیں ہوگا۔برطانیہ کے ادیب جوزف رڈیارڈ کپلنگ کی 1894 میں شائع ہونے والی کتاب کا یہ کردار ڈزنی اسٹوڈیوز کی مہربانی سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکا ہے۔مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ بھیڑیوں میں پرورش پانے والا یہ کردار افسانوی نہیں بلکہ ایک حقیقی شخصیت سے متاثر ہے؟اس شخصیت کی کہانی کافی دلچسپ ہے جو 19 ویں صدی کی ہے۔دینا سنیچر نامی یہ فرد 1860 کی دہائی کے شروع میں پیدا ہوا تھا اور شکاریوں کے ایک گروپ نے اسے فروری 1867 میں ریاست اتر پردیش میں بھیڑیوں کی ایک غار میں دریافت کیا تھا۔اسی شخص نے جنگل بک کے مصنف کو متاثر کیا تھا جس کے بعد کتاب تحریر ہوئی مگر حقیقی کہانی اتنی پرمسرت نہیں جتنی موگلی کی تھی۔جب 6 سال کی عمر (ایسا مانا جاتا ہے) میں دینا سنیچر کو شکاریوں نے دریافت کیا تو وہ کھڑے ہوکر چل نہیں سکتا تھا بلکہ چاروں ہاتھوں پیروں پر کسی جانور کی طرح چلتا تھا اور بھیڑوں کے ایک غول کا حصہ تھا۔شکاریوں نے اسے بھیڑیوں کے ساتھ غار میں جاتے دیکھا تو انہیں شدید دھچکا لگا اور وہ دہشت زدہ بھی ہوگئے۔مگر اس پراسرار بچے نے ان کا تجسس بھی بڑھا دیا تھا تو انہوں نے اس تک پہنچنے کا فیصلہ کیا اور پہلے تو غار کے سامنے آگ بھڑکا کر بھیڑیوں اور بچے کو باہر نکالا۔اس کے بعد وہ شکاری بھیڑیوں کو مار کر بچے کو اپنے ساتھ لے گئے۔اس بچے کو ایک یتیم خانے میں پہنچایا گیا اور اس کا نام سنیچر (یعنی ہفتے کا دن) رکھا گیا کیونکہ وہ اس دن یتیم خانے میں پہنچا تھا۔وہاں اس بچے کو متعدد مشکلات کا سامنا ہوا کیونکہ اسے انسانی زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔یتیم خانے کے عہدیدار تو اسے پاگل سمجھے تھے مگر پھر بھی کسی حد تک اس کی جانب سے فراست کا مظاہرہ کیا جاتا تھا، مگر وہ کبھی بولنا سیکھ نہیں سکا۔یتیم خانے میں متعدد افراد نے کوشش کی مگر وہ کبھی بولنے، پڑھنے یا لکھنے کے قابل نہیں ہوسکا۔اس کی بجائے وہ دیگر افراد سے بات چیت جانوروں کی آواز میں کرتا تھا اور چاروں ہاتھوں پیروں پر چلتا تھا۔البتہ چند سال وہاں گزارنے کے بعد اس نے انسانوں کی طرح چلنا سیکھ لیا مگر پھر بھی اسے کپڑے پہننے میں مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔جب وہ یتیم خانے پہنچا تھا تو اس نے پکے ہوئے گوشت کو کھانے سے انکار کردیا تھا جبکہ اپنے دانتوں کو ہڈیوں سے تیز کرتا رہتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام تر باتوں کے باوجود وہ ایک دوست بنانے میں کامیاب ہوگیا اور وہ بھی ایک ایسا بچہ تھا جو جانوروں کے ساتھ پلا بڑھا تھا، ممکنہ طور پر اسی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے قریب بھی آئے۔انسانوں کے ساتھ 10 سال رہنے کے بعد بھی دینا سنیچر بہت زیادہ خوفزدہ رہتا تھا اور اس کا قد محض 5 فٹ کا تھا جبکہ دانت بہت بڑے تھے۔لوگوں کے خیال میں اپنے بچپن کا بڑا حصہ بھیڑیوں کے ساتھ گزارنے کی وجہ سے وہ انسانوں میں خود کو کسی ایلین جیسا سمجھتا تھا جسے زبردستی گھر سے الگ کردیا گیا ہو۔دینا سنیچر نے بہت کم انسانی عادات کو اپنایا تھا اور ان میں سے ایک کی وجہ سے ہی وہ ہلاک ہوا اور وہ عادت تھی تمباکو نوشی۔متعدد افراد کا ماننا ہے کہ تمباکو نوشی کے نتیجے میں وہ تپ دق (ٹی بی) کا شکار ہوگیا تھا۔اسی بیماری کے نتیجے میں 1895 میں 29 سال کی عمر میں وہ دنیا سے چل بسا۔اسی کہانی سے متاثر ہوکر جوزف رڈیارڈ کپلنگ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب تحریر کی مگر انہوں نے کبھی واضح طور پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ موگلی کا کردار دینا سنیچر سے متاثر تھا۔مگر کہانی کے کچھ حصے بالکل ویسے ہی ہیں جیسے دینا کی زندگی میں نظر آئے۔البتہ موگلی کے برعکس دینا نے اپنی مرضی سے جنگل کو نہیں چھوڑا تھا بلکہ اسے زبردستی انسانی معاشرے کا حصہ بنایا گیا۔