ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کی ضرورت۔محمود مدنی
نئی دہلی، جولائی۔ ملک کے موجودہ حالات پر فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہر طرح کی کوشش کی ضرورت ہے، جمعیۃ علماء ہند اس سلسلے میں آئینی، سماجی جد وجہد کے علاوہ بین المذاہب ہم آہنگی پروگرام کا انعقاد کررہی ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے دوروزہ قومی اجلاس،کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ انسداد ہیٹ کرائم کے لیے باضابطہ ایک شعبہ قائم کیا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ انتہائی اہم ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار کس طرح کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،اس کو درست کیے بغیر حالات کی بہتری بہت مشکل ہے۔انہوں نے اس موقع پر پسماندہ طبقات کے مسائل حل کرنے کی کوششوں کو وقت کی بڑی ضرورت قرار دیا۔سابقہ کارروائی کی خواندگی جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے کی۔آج کے اجلاس میں خاص طور سے جمعیۃ میں جاری مصالحتی عمل سے متعلق طویل مباحثے کے بعد متفقہ طور سے درج ذیل تجویز منظور ہوئی”جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ حالیہ مصالحتی عمل کو بنظر استحسان دیکھتی ہے اور اس کو جاری رکھنے پر اتفاق کرتی ہے اور اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے صدر جمعیۃ علماء ہندمولانا محمود اسعد کو دستور کے مطابق کسی مناسب حل کے لیے گفتگو کا اختیار دیتی ہے،نیز یہ ضروری سمجھتی ہے کہ جانبین اس سلسلے میں محض زبانی گفتگو پر اکتفا نہ کریں بلکہ جملہ تجاویزاور موقف تحریر ی شکل میں پیش کریں۔ ”علاوہ ازیں مصالحتی کوششوں کو تقویت دینے اور تکمیل تک پہنچانے کے لیے جملہ اراکین عاملہ،مدعوئین خصوصی، صوبائی صدور اورنظمائے اعلی کی طرف سے اپنے اپنے عہدوں اور رکنیت سے،صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی خدمت میں استعفیٰ پیش کرنے کی تجویز بھی منظور کی گئی۔“فرقہ وارانہ حالات پر مجلس عاملہ نے منظور کردہ تجویز میں کہا کہ”منافرت انگیزی، مذہبی عناد اور مذہبی ییشواؤں کی توہین کو جس طرح سیاسی لیڈروں، مذہبی رہ نماؤں اور میڈیا کے ذریعہ فروغ دیا جارہا ہے، وہ ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ اور قومی و بین الاقوامی سطح پر شدید بدنامی کا باعث ہے۔بالخصوص برسر اقتدار جماعت اور اس سے وابستہ سیاسی رہ نماؤں، یہاں تک کہ ممبران پارلیامنٹ، ممبر ان اسمبلی کے تحقیر آمیز بیانات پر فو ری طور پر روک لگایا جانا ضروری ہے، کیوں کہ وہ سماج کے بہت بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں۔“”ان حالات کے تدارک کے لیے سپریم کورٹ نے تحسین پونہ والا کیس (۸۱۰۲ء) میں گائیڈ لائن بھی جاری کی تھی، لیکن صدافسوس سرکاروں نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی،بالآخر21جولائی 2022ء کو صدر محترم جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سرکاروں سے اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے۔یہ اجلاس ملک کے حالات کے مدنظر صدر جمعیۃ علماء ہند کے اس آئینی اقدام کو بروقت اور ضروری تصور کرتا ہے اور امید ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ فرقہ پرستی پر نکیل کسنے کے لیے موثر ہدایت جاری کرے گی۔“”اس کے مدنظر یہ اجلاس حکومت ہند سے بالخصوص مطالبہ کرتا ہے کہ انسداد فرقہ وارانہ فسادات اور تحقیر آمیز رویوں کے سلسلے کو بلاتاخیر بند کیا جائے اور تشدد کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں موثر قانون بنا کر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ نیز اکثریت و اقلیت کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کی جائے۔اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند اپنی تمام یونٹوں کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ اجلاس مجلس منتظمہ جمعیۃ علماء ہند (منعقدہ 28، 29، مئی2022) کی تجویز کی روشنی میں سدبھاؤ نا سنسد کا انعقاد کریں جس میں سبھی مذاہب کے بااثر افراد کو جمع کریں اور جمعیۃ سدبھاؤ منچ کے تحت سدبھاؤنا کمیٹی قائم کریں۔“ایک بنیادی فیصلے میں مجلس عاملہ نے تمام صوبائی ذمہ داران و ضلعی ذمہ داران کو پابند کیا ہے کہ وہ ضلعی سطح پر کارکنان کے لیے تربیتی پروگرام کا انعقاد کریں جس میں قیام مکاتب، جمعیۃ کے دیگر تعمیر ی پروگرام جیسے تفسیر قرآن، بیان سیرت، اصلاح معاشرہ وغیرہ کا انعقاد عمل میں لایا جائے، ایجنڈا نمبر (۵) کے تحت جمعیۃ علماء ہند کے تحت چل رہے عدالتی کارروائیوں کے جائزے سے متعلق تفصیلی رپورٹ مولانا نیاز احمد فاروقی (ایڈوکیٹ) نے پیش کی۔ایک اہم فیصلے میں مجلس عاملہ نے یہ طے کیا کہ پسماندہ طبقات کی تنظیموں کے ذمہ داران سے مشاورتی میٹنگ کی جائے اور ان کے مسائل کو سن کر حل کرانے کی کوشش کی جائے۔اجلاس میں مفتی ا بوالقاسم نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، مولانا محمد سلمان بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا مفتی احمد دیولہ نائب صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا قاری شوکت علی خازن،نائب امیرا لہند مولانا مفتی محمد سلمان منصورپوری، مولانا رحمت اللہ کشمیری، مولانا بدرالدین اجمل، مولانا مفتی محمد راشد اعظمی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حاجی محمد ہارون مدھیہ پردیش، حافظ شبیر احمد حیدرآباد، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت، مولانا مفتی محمد عفان منصورپوری، مفتی محمد جاوید اقبال کشن گنجی، مولانا نیاز احمد فاروقی، قاری محمد امین راجستھان، مولانا عبد الرب اعظمی، مولانا ندیم صدیقی مہاراشٹرا، مولانا ذاکر قاسمی ممبئی، مفتی عبدالرحمن نوگاواں سادات، ڈاکٹر مسعود اعظمی وغیرہ نے شرکت کی۔