مذاکرات تعطل کا شکار، ایران کی جوہری بم کی تیاری اوراسرائیل کی فوجی کارروائی کی دھمکی
تہران/تل ابیب،جولائی۔ایرانی جوہری خطرے کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی اسرائیلی دھمکی کی روشنی میں سابق ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے پریس بیانات میں اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے ملک کے پاس جوہری بم تیار کرنے کی تکنیکی صلاحیتیں موجودہیں، تاہم انہوں نے اپنے سرکاری موقف کا اعادہ کیا کہ تہران نے ابھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔خرازی نے کہا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ ایران کے پاس جوہری بم بنانے کی تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ چند ہی دنوں میں تہران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح کو 20 سے بڑھا کر 60 فی صد کر دیا تھا۔ اسے مزید 90 فی صد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایران جوہری توانائی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
مشترکہ عہد:یہ پیش رفت امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم یائر لپیڈ کی جانب سے گذشتہ جمعرات کو تہران کے ساتھ سفارتی کوششوں پر طویل بحث کے اختتام پر ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے مشترکہ عہد پر دستخط کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔بائیڈن جنہوں نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کا دورہ کیا، کہا کہ وہ تہران کے خلاف طاقت کے استعمال کو آخری آپشن قرار دیا۔قابل ذکر ہے کہ ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات گذشتہ سال اپریل سے ویانا میں شروع ہوئے تھے اور میراتھن راؤنڈز تک جاری رہے۔مذاکرات کا عمل گذشتہ مارچ میں معاہدے سے باہر کی کچھ نئی ایرانی درخواستوں کی وجہ سے رک گیا تھا۔ ایران نے پاسداران انقلاب کو بلیک لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ کیا تھا مگر امریکا نے یہ مطالبہ نہیں مانا۔
اسرائیل کی ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی:اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ایویو کوچاوی نے اتوار کو اعلان کیا کہ اسرائیل اپنے ہوم فرنٹ کو جنگ کے لیے تیار کر رہا ہے جو ایرانی جوہری خطرے کے خلاف کام کرنے کے امکان کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج ایران میں حملے کے لیے بھرپور تیاری کر رہی ہے۔ انہوں نے کسی بھی پیش رفت اور کسی بھی منظر نامے کے لیے تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف فوجی آپشن قومی سلامتی اور اسرائیلی فوج کی تیاریوں کے مرکز میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف قسم کے آپریشنل منصوبے ہیں، بہت سے وسائل مختص کرنا، مناسب ہتھیاروں کا حصول، انٹیلی جنس کا حصول اور تربیت جیسے امور پرکام ہو رہا ہے۔اسی تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم یائر لپیڈ نے تصدیق کی کہ انہوں نے امریکی صدر بائیڈن پر جوہری معاہدے کی مخالفت واضح کر دی ہے۔اتوار کو حکومتی اجلاس کے آغاز میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف سفارتی اور عملی طور پر کارروائی کی مکمل آزادی برقرار رکھتا ہے۔لپیڈ نے بھی بائیڈن کے دورے کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ اس دورے کے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے اثرات ہوں گے۔