افغانستان میں 250 خواتین ججوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
کابل،ستمبر۔افغانستان میں خواتین کے حالات مبصرین کے لیے بحث کا ایک بڑا موضوع ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد خواتین کو کام کرنے سے روکنے، سیکنڈری سطح پر طالبات کے تعلیم جاری رکھنے اور دیگر امور میں خواتین کی سرگرمیوں پرپابندی کے بعد جنگ زدہ ملک میں ان 250 خواتین ججوں کا مستقبل بھی مخدوش ہے جو سابقہ حکومت کیدور میں عدالتوں میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔دسیوں خواتین جج بیرون ملک فرارمیں کامیاب ہوگئی ہیں مگربہت سی جج خواتین اب بھی افغانستان کے اندر ہیں۔ دو ماہ سے ان میں سے کوئی بھی اپنی ڈیوٹی پر واپس نہیں آئی ہے۔ ان خواتین ججوں کا مستقبل اورزندگی دونوں خطرے میں دکھائی دیتے ہیں۔عزیزہ بیاندوری ان افغان خواتین ججز میں سے ایک ہیں۔ وہ مزار شریف شہرکی سول کورٹ میں جج تھیں اور اب وہ جمہوریہ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے آنے کی منتظرہیں جس کے بعد وہ کسی یورپی ملک میں پناہ لینے کا سوچ رہی ہیں۔’اسکائی نیوز عربیہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بیاندوری نے درجنوں سابق افغان خواتین ججوں کے موجودہ حالات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہمیں کام سے روکنے کے سوا ہمارے خلاف کوئی جوابی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ مگر ہم ایک ان دیکھے خوف کا شکار ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہم نے طالبان رہ نماؤں ، جرائم پیشہ عناصر، منشیات فروش ،بدمعاش قبائلی لیڈروں کے خلاف فیصلے صادر کیے۔ وہ ہم خواتین کے عدالتوں میں کام کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اس وقت فیصلہ سازاداروں میں ہیں اور اقتدارپر فائز ہیں۔ یہ سب خواتین ججوں کو انتقام کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ وہ ہمیں ڈھونڈ رہے ہیں۔افغان خاتون جج نے بتایا کہ جب طالبان جنگجو مزار شریف کے قریب پہنچ رہے تھے تو میں اپنے شوہر اور اپنے ایک بیٹے کے ساتھ قریبی شمالی دیہات میں چھپ گئی۔ پھر ہم چاردن بعد مقامی سمگلروں کے ذریعے تاجکستان پہنچے۔ میں نے شہرمیں اپنا گھر چھوڑدیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میرے دو بیٹے اس وقت دارالحکومت کابل میں زیرتعلیم تھے اور وہ اب بھی افغانستان کے اندر ہیں۔ ہم ان کے تاجکستان آنے کے منتظر ہیں۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ہائی کمشنر میشل بیچلیٹ نے میڈیا کے بیانات میں اس بات کا تذکرہ کیا جسے انہوں نے الزامات کے نتیجے میں ہونے والی کارروائیوں کا نام دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کونسل کو دستیاب معلومات صرف اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ طالبان کی تحریک کے لوگ گھر گھرجا رہے ہیں۔ طالبان جنگجوسرکاری عہدیداروں اور ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں جنہوں نیسابق حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔افغان امورکے مبصرین نے دارالحکومت کابل کے نئے میئر حمد اللہ نعمانی کی جانب سے خواتین کے حقوق کے لیے جاری کیے گئے غیر منصفانہ اور توہین آمیز انتظامی احکامات کا حوالہ دیا ہے۔ طالبان لیڈر نے کابل بلدیہ کے ایک ہزار خواتین ملازمین کو واپس ان کی ڈیوٹیوں پرآنے سے روک دیا ہے۔نعمانی نے کہا کہ خواتین بیت الخلاء کے امورمیں کام کرسکتی ہیں۔ مبصرین نے ان رویوں کو طالبان کی طرف سے خواتین کے ساتھ ان کے برتاؤ کی زندہ مثال کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ چاہے اس طرح کے رویوں کا اظہار تحریری شکل میں ہو یا زبانی ہو۔افغان محقق اور افغان آزاد انسانی حقوق کمیشن کی کارکن روجھال خماداری نے اسکائی نیوز عربیہ ویب سائٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں وضاحت کی اس وقت ایک تہائی خواتین جج افغانستان سے باہر ہیں اور باقی سب سے زیادہ دارالحکومت کابل میں ہیں۔ ان کی تعداد 170 ہے اور یہ سب اس وقت روپوش ہیں۔ملک کے اندر باقی خواتین ججوں کے تحفظ کے حوالے سے طالبان تحریک کے ساتھ رابطے اور ثالثی کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ خامداری کا کہنا تھا کہ ناروے دنیا بھر میں ان کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ججز (IAWJ) نے کہا ہے کہ وہ افغان خواتین ججوں اور ان کے خاندانوں کے لیے افغانستان سے باہر دوسرے ممالک میں محفوظ راستے بنانے کے لیے تیار ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے افغان کارکنوں نے مسترد کر دیا کیونکہ وہ اسے پسپائی اور افغانستان سے موثر انسانی توانائیوں ملک سے باہر منتقل کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔