ساڑھے تین ملین بنگلہ دیشی بچے پینے کے صاف پانی سے محروم
ڈھاکا/اقوام متحدہ،جون۔اقوام متحدہ کے مطابق رواں ماہ آنے والے تباہ کن سیلابوں کے باعث بنگلہ دیش میں ساڑھے تین ملین بچے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور انہیں پینے کے لیے محفوظ پانی کی اشد ضرورت ہے۔ ان سیلابوں میں درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف نے اپیل کی ہے کہ اسے بنگلہ دیش کے ان کئی ملین بچوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے 2.5 ملین ڈالر کی فوری امداد کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت میں اسی مہینے مون سون کی شدید بارشوں کے بعد وسیع تر علاقوں میں آنے والے سیلابوں نے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہی مچائی۔ان سیلابوں کی وجہ سے دونوں ملکوں میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی ملین اس طرح متاثر ہوئے کہ یا تو وہ پانی میں گھر کر رہ گئے یا ان کے گھر مہندم ہو گئے۔بنگلہ دیش کے شمال مشرق میں وسیع تر علاقوں میں گزشتہ ہفتے ہونے والی موسلا دھار بارشوں کے بعد جو علاقے ملک کے دیگر حصوں سے کٹ کر رہ گئے، ان میں متاثرین کی مدد کے لیے فوج طلب کی جا چکی ہے۔بنگلہ دیش میں یونیسیف کے نمائندے شیلڈن ڑیٹ نے ویڈیو رابطے کے ذریعے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا، ”شمال مشرقی بنگلہ دیش میں آنے والے اچانک سیلابوں سے پیدا شدہ صورت حال گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خراب سے خراب تر ہو چکی ہے۔ ساڑھے تین ملین متاثرہ بچوں کو پینے کے صاف پانی کی فوری ضرورت ہے۔ یہ صورت حال اس لیے انتہائی تشویش ناک ہے کہ صرف ایک ہفتہ قبل تک ایسے بچوں کی تعداد محض ڈیڑھ ملین تھی، جو پینے کے محفوظ پانی سے محروم تھے۔‘‘شیلڈن ڑیٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ کئی علاقے اتنی بری طرح زیر آب آ چکے ہیں کہ وہاں پھنسے ہوئے باشندوں، خاص کر بچوں کو پینے کا صاف پانی یا کوئی خوراک تک میسر نہیں۔ ان بچوں کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘بنگلہ دیش میں یونیسیف کے نمائندے نے مزید بتایا کہ سیلابوں سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں صاف پانی کے حصول کے 40 ہزار سے زائد مقامات اور تقریباً 50 ہزار بیت الخلاء اتنی بری طرح متاثر ہوئے ہیں کہ اگر بچے آلودہ ہو جانے والا پانی پینے پر مجبور ہو گئے، تو پہلے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں اسہال اور ہیضے جیسی بیماریوں کے وبائی شکل اختیار کر جانے کا شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے متاثرہ علاقوں میں پیٹ کی بیماریاں پہلے ہی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔یونیسیف کے مطابق بنگلہ دیش میں موجودہ سیلابوں کے نتیجے میں سلہٹ ڈویڑن اور اس کے علاقائی دارالحکومت میں صحت عامہ کے 90 فیصد مراکز پانی میں ڈوب چکے ہیں جبکہ پانچ ہزار اسکول اور دیگر تعلیمی مراکز بھی زیر آب آ چکے ہیں۔سلہٹ ایئر پورٹ، جو ملک کا تیسرا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے، کل جمعرات تک بند ہونے کی وجہ سے یونیسیف نے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان ٹرکوں کے ذریعے پہنچایا۔اب تک سیلاب زدہ علاقوں سے تقریباً نصف ملین متاثرین کو نکالا جا چکا ہے۔ مگر انہیں مجبورآ ایسے ریسکیو مراکز میں رکھا جا رہا ہے، جو پہلے ہی بھرے پڑے ہیں اور جہاں خاص طور پر بچوں، لڑکیوں اور خواتین کی سلامتی اور حفظان صحت کے تقاضے پورے کرنے کے انتظامات انتہائی ناکافی ہیں۔شیلڈن ڑیٹ نے زور دے کر کہا کہ یونیسیف کو فوری طور پر 2.5 ملین ڈالر کی امدادی رقوم کی ضرورت ہے تاکہ ایمرجنسی ردعمل کے طور پر سیلاب سے متاثرہ شہریوں، خاص طور پر تقریباً 3.5 ملین بچوں کی ہنگامی بنیادوں پر مدد کی جا سکے۔