روسی صحافی نے درماندہ یوکرینی بچوں کی مدد کے لیے اپنا نوبیل انعام فروخت کر دیا
نیویارک،جون۔روس سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتہ صحافی نے جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے یوکرینی بچوں کی مدد کے لیے نوبیل پرائز کا طلائی میڈل بیچ دیا۔خبروں کے مطابق ڈمٹری موراتوف، جو نووایا گیزیٹا نامی اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں، نے پیر کو نیویارک میں نوبیل کے میڈل کی بولی لگوائی اور طلائی میڈل 10 کروڑ 35 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوا۔رپورٹ کے مطابق بولی فون کے ذریعے لگائی گئی اور جس شخص نے میڈل خریدا ان کا نام سامنے نہیں آ سکا۔ نیلام کا اہتمام نیویارک میں کیا گیا تھا۔بولی کے وقت بہت جوش و خروش دیکھا گیا، بولی لگانے والے ایک دوسرے بڑھ بڑھ کر بولیاں لگاتے رہے اور یوں بولی کی رقم بڑھتی رہی۔ نیلامی کی ویڈیو میں موراتوف کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔جب آخری بولی سامنے آئی تو وہ پچھلی سے کئی ملین زیادہ تھی، جس پر ہال میں موجود افراد کو جھٹکا لگا اور کچھ ایسی ہی حالت وہاں موجود موراتوف کا بھی ہوا۔خبروں کے مطابق اس حوالے سے بعدازاں انہوں نے کہا ’میں اس کے لیے آپ کو بہت پسند کرتا ہوں۔‘موراتوف کو نوبیل پرائز 2021 میں دیا گیا تھا جس میں فلپائن کی صحافی ماریہ ریسا بھی ساتھ تھیں۔ اس وقت انعام کا فیصلہ کرنے والی کمیٹی نے کہا تھا ’اعزاز ان کو آزادی اظہار رائے کے تحفظ کے لیے دیا جا رہا ہے۔‘موراتوف ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد 1993 میں نووایا گیزیٹا نامی اخبار کی بنیاد رکھی تھی۔ان کا اخبار اس سال کا واحد روسی اخبار ہے جس نے صدر پوتن کے ملکی اور عالمی طور پر کردار پر تنقید کی۔روس کے یوکرین پر حملے کے چند روز بعد مارچ میں اس اخبار نے اس وقت اپنی اشاعت بند کر دی تھی جب ماسکو نے کریملن کی فوجی مہم پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قید اور کچھ دوسری سخت قانون سازی کی تھی۔اپریل میں موراتوف کو ٹرین پر سفر کے دوران ایک حملے کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا اور ایک شخص نے ان پر ایسا محلول پھینک دیا تھا جس سے ان کی آنکھیں جل گئی تھیں۔نیلامی کے دوران بولی کے موقع پر موراتوف مسلسل موجود اور یونیسف کے حکام کے ساتھ آن لائن بھی رہے جو اس پروگرام کا حصہ ہیں جو جس کے تحت یوکرین کے بے گھر ہونے والے بچوں کی مدد کی جاتی ہے۔جب موراتوف سے پوچھا گیا کہ انہوں نے امدادی رقم صرف یونینسف کو ہی دینے کا فیصلہ کیوں کیا تو ان کا کہنا تھا ’ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم کسی حکومت سے تعلق نہیں رکھتی، یہ حکومت سے بالا کام کر سکتی ہے، اس کے کوئی بارڈرز نہیں ہیں۔