قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ سے جڑے چند سوالات کے جواب
دوحہ،جون۔قطر میں رواں نومبر و دسمبر ہونے والا فٹ بال ورلڈ کپ وہ پہلا ورلڈ کپ ہو گا جو مشرقِ وسطیٰ میں ہو رہا ہے اور پہلی مرتبہ اسے سال کے ان مہینوں میں منعقد کیا جائے گا۔قطر میں ورلڈ کپ منعقد کروانے کے فیصلے پر کافی تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ورلڈ کپ مقابلے 21 نومبر سے 18 دسمبر کے درمیان منعقد ہوں گے جب قطر میں درجہ حرارت تقریباً 25 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔اگر یہ مقابلے معمول کے مطابق جون یا جولائی میں ہوتے تو میچز کے دوران درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا اور ممکنہ طور پر 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی ہوتا۔ابتدائی طور پر قطر نے تجویز دی تھی کہ وہ گرمیوں میں مکمل طور پر ایئرکنڈیشنڈ سٹیڈیمز میں یہ میچ کروائے گا مگر یہ منصوبہ رد کر دیا گیا۔نومبر اور دسمبر یورپی فٹ بال کلبز کے لیے عموماً مصروف مہینے ہوتے ہیں۔ صفِ اول کے زیادہ تر کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کے لیے بلا لیا جائے گا۔چنانچہ انگلینڈ کی پریمیئر لیگ، اٹلی کی سیری آ اور سپین کی لا لیگا نے اپنے اپنے سیزنز اس بین الاقوامی مقابلے سے ایک ہفتہ پہلے تک معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔سنہ 2010 میں قطر نے فیفا کے 22 ایگزیکٹیو ارکان کے درمیان ہونے والی بیلٹنگ جیت کر ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق جیتے تھے۔ اس نے امریکہ، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کی بولیوں کو پچھاڑا تھا۔پہلی مرتبہ کوئی عرب ملک اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔قطر پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے 37 لاکھ ڈالر کے عوض فیفا حکام کی حمایت خریدی ہے تاہم دو سالہ تحقیقات کے بعد اسے کلیئر کر دیا گیا۔اس وقت فیفا کے چیئرمین سیپ بلیٹر نے قطر کی حمایت کی تھی تاہم اْنھوں نے تب سے کئی مرتبہ کہا ہے کہ فیفا نے غلط فیصلہ لیا ہے۔سیپ بلیٹر اس وقت سوئٹزرلینڈ میں دھوکہ دہی، ہیرا پھیری اور دیگر الزامات کے ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے قطر پر ورلڈ کپ کی سہولیات کی تعمیر کرنے والے غیر ملکی کارکنان کے ساتھ برے سلوک کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ورلڈ کپ 2022 کے لیے کوالیفائرز تین سال قبل شروع ہوئے تھے۔سنہ 2018 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم فرانس نے کوالیفائی کیا مگر موجودہ یورپی چیمپیئن اٹلی کوالیفائی نہیں کر سکا۔فائنلز کے لیے 32 ٹیموں کو چار چار کے گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک ہی برِاعظم کی ٹیموں کو الگ الگ گروپس میں رکھا گیا تاہم ایک گروپ میں زیادہ سے زیادہ دو یورپی ممالک ہو سکتے ہیں۔برازیل، انگلینڈ اور فرانس فی الوقت بک میکرز کے نزدیک ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے فیورٹ ہیں۔قطر کی آبادی 29 لاکھ ہے تاہم یہ تیل اور گیس کی برآمدات کے باعث دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ہے۔اس نے خاص طور پر اس ٹورنامنٹ کے لیے سات سٹیڈیمز بنائے ہیں اور بالخصوص فائنل میچ کی میزبانی کے لیے ایک پورا شہر بسایا ہے۔اس کے علاوہ 100 سے زیادہ نئے ہوٹلز، ایک نئی میٹرو سروس اور نئی سڑکیں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ٹورنامنٹ کی تنظیمی کمیٹی نے کہا ہے کہ 15 لاکھ لوگ ورلڈ کپ میچز دیکھیں گے۔قطر ایک قدامت پسند مسلمان ملک ہے اور تماشائیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محتاط رویہ اختیار کریں۔شراب پینے پر سخت پابندی ہے اور اسے صرف لگڑری ہوٹلوں کے شراب خانوں میں خریدا جا سکتا ہے۔ بیئر کا ایک پنٹ 13 ڈالر تک کا ہو سکتا ہے۔تاہم منتظمین کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ کے دوران مداحوں کے لیے مخصوص علاقوں میں شراب دستیاب ہو سکتی ہے۔قطر میں ہم جنس پرستی کی ممانعت ہے۔ ہم جنس پرست فٹ بال شائقین کے نمائندہ گروہوں نے قطری حکومت سے کہا ہے کہ وہ اْن کے تحفظ کی یقین دہانی کروائے۔ویلز کے کچھ مداحوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے کوالیفائی کرنے کے باوجود اس ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کریں گے۔ورلڈ کپ کے منتظمین نے جواباً کہا کہ وہ ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں مگر یہ تصدیق کی کہ قطر ٹورنامنٹ کے دوران ہم جنس پرستی سے متعلق قوانین میں نرمی نہیں کرے گا۔