بارڈر کے 25 سال: جنگ کے موضوع پہ بنی فلم جس پر پاکستان میں پابندی لگی لیکن گانے دلوں کو چھْو گئے
ممبئی،جون۔ سال 1971، انڈیا پاکستان سرحد اور راجستھان میں لونگے والا پوسٹ۔۔۔ بریگیڈیئر چاند پوری جنگ کے دوران لونگے والا پوسٹ پر تعینات تھے۔ ایک طرف سرحد پر پاکستان کی پوری ٹینک رجمنٹ اور چاند پوری کی کمان میں صرف 120 انڈین فوجی تھے۔پاکستان کی ٹینک رجمنٹ اور ان 120 سپاہیوں کے درمیان کیا ہوا، کیسے ہوا… اس بارے میں 1997 میں پروڈیوسر ڈائریکٹر جے پی دتہ نے فلم ’بارڈر‘ بنائی تھی۔یوں تو 90 کی دہائی سے پہلے بھی ’حقیقت‘ جیسی فلمیں جنگ کے موضوع پر بن چکی تھیں لیکن گذشتہ 30 سالوں میں پاکستان اور انڈیا کے موضوع پر مقبول ہونے والی ’وار فلمز‘ کی کیٹیگری میں فلم بارڈر کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ایسی فلم جس میں جنگ، قوم پرستی، حب الوطنی یہ سب نکات تھے، جو بعد میں شیرشاہ، اوڑی دی سرجیکل اسٹرائیک، کیسری جیسی فلموں میں مختلف انداز میں نظر آئے۔ اس لحاظ سے ’بارڈر‘ کو رجحان ساز سمجھا جاتا ہے۔ اس سال فلم نے اپنے 25 سال مکمل کر لیے ہیں۔ فلم بارڈر جے پی دتہ کے دل کے بہت قریب رہی ہے کیونکہ یہ ان کے بھائی سکواڈرن لیڈر دیپک دت کے تجربات کے گرد بنی تھی، جو انڈین فضائیہ میں تھے۔ جے پی دتہ نے اس فلم کو 1971 کی جنگ سے جوڑ کر بنایا تھا۔اس فلم میں سنی دیول نے جو فوجی افسر کا کردار ادا کیا تھا وہ بریگیڈیئر چاند پوری تھے، جنہیں پاک انڈیا جنگ میں لونگوالا جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے اور انہیں مہا ویر چکر اور وششٹ سیوا میڈل سے نوازا گیا تھا۔فلم بارڈر میں فوج یا فضائیہ کے بارے میں جو بھی مناظر دکھائے گئے، وہ سب حکومت کی طرف سے کلیئر کر دیے گئے۔2018 میں بی بی سی پنجابی کے سربجیت دھالیوال کے ساتھ بات چیت میں بریگیڈیئر چاند پوری نے پاکستان انڈیا جنگ کے بارے میں بتایا تھا کہ ’لڑائی 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی، اس میں تقریباً 60 پاکستانی ٹینک تین ہزار فوجیوں کے ساتھ آئے۔ آدھی رات کے قریب لونگے والا کا محاصرہ کیا باقی فوج کا سب سے قریبی سپاہی مجھ سے 17-18 کلومیٹر دور تھا جب ہم گھرے ہوئے تھے تو میری کمپنی پنجاب رجمنٹ کی طرف سے حکم آیا کہ لونگے والا ایک اہم پوسٹ ہے اس کے لیے آپ کے پاس ہے۔ آخری آدمی تک لڑنا پڑے گا، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم یہیں لڑیں گے۔‘
’ہر آدمی موت سے ڈرتا ہے‘:اگر آپ نے سرحد دیکھی ہے تو آپ کو سنی دیول کے وہ بھاری بھرکم ڈائیلاگ یاد ہوں گے جو انھوں نے میدان جنگ میں کہا تھا ’پہلی گولی وہ چلائیں گے، آخری گولی ہم، ہر گولی پر ملک دشمن کا نام لکھا ہوگا۔‘موت کے سائیمیں سنی دیول یہ مکالمے اپنے ساتھیوں سے بڑے بے خوف انداز میں بولتے ہیں۔ لیکن اس پر حقیقی زندگی کے ہیرو بریگیڈیئر چاند پوری نے بی بی سی کو کیا بتایا؟انھوں نے کہا تھا کہ ’لڑائی تو ہونی ہی تھی، لیکن میں ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ موت سے ہر شخص ڈرتا ہے، بڑے بڑے سورما ڈرتے ہیں، میں بھی ڈرتا ہوں، باقی سب بھی ڈرتے ہیں، یہ بہت مشکل کام ہے کہ باقی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں اور یہ کہیں کہ آپ بھی مجھ سے لڑ کر مر جائیں۔‘
بارڈر کے 25 سال:بارڈر سولو ہیرو کے دور میں ملٹی سٹار کاسٹ والی ایک بڑی فلم تھی، جس میں سنی دیول، سنیل شیٹی، اکشے کھنہ، پوجا بھٹ، تبو، پونیت اسار، سدیش بیری، کلبھوشن کھرمبادا، راکھی، جیکی جیسے اداکار تھے۔ ہر اداکار خود سے کہہ سکتا تھا کہ وہ فلم کا ہیرو ہے۔اکشے کھنّہ کا کردار فوج میں نیا بھرتی ہوا تھا، جس کے لیے گولی مارنا تقریباً ناممکن تھا، لیکن میدان جنگ میں، جس نے اپنی جان دے کر سب کو شکست دی۔ اس کی ماں (راکھی) اور گرل فرینڈ (پوجا بھٹ) گاؤں میں بس اس کا انتظار کرتی رہیں۔ یا پھر راجستھان کی ریت میں پلے بڑھے بڑے بھیرن سنگھ (سنیل شیٹی) جنہیں شادی کی رات فرنٹ پر بلایا جاتا ہے اور شادی کے بعد یہ ان کی پہلی اور آخری ملاقات ہوتی ہے۔یا پھر فوجی باورچی کلبھوشن کھربندہ، جو موقع ملنے پر قہقہے لگاتے ہوئے بندوق اٹھا لیتا ہے۔
بارڈر ڈائیلاگ اور گانے:فلم کے ڈائیلاگ آج کل کچھ اوور دی ٹاپ لگتے ہیں لیکن اس وقت انڈیا میں تھیٹر میں ہر ایک ڈائیلاگ پر خوب تالیاں بجتی تھیں۔مثال کے طور پر، سنی دیول کا یہ 2 منٹ 21 سیکنڈ لمبا اور گرجدار ایکولوگ جب وہ سدیش بیری یعنی متھرا داس کو جنگ سے پہلے ڈسچارج ہونے کے بعد خوشی سے ناچتے اور کودتے ہوئے دیکھتا ہے۔’متھرا داس جی آپ خوش ہیں کہ آپ گھر جا رہے ہیں۔ لیکن خوشی کا جو مضحکہ خیز ڈانس آپ اپنے بھائیوں کے سامنے کر رہے ہیں وہ اچھا نہیں ہے۔ آپ کی چھٹی اس لیے منظور کر لی گئی ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی مسئلہ ہے۔ کس کے پاس نہیں ہے۔ دنیا کا ایک مسئلہ زندگی کا دوسرا نام مسئلہ ہے اپنے بھائیوں سے کہو کوئی ہے جس کی بیوہ ماں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتی اور اس کا اکلوتا بیٹا صحرا کی خاک میں گم ہو گیا ہے۔‘فلم کی کامیابی میں اس کی موسیقی نے بڑا کردار ادا کیا۔ اونچی ہے بلڈنگ جیسے گانے والے انو ملک نے اس فلم میں بالکل مختلف قسم کا میوزک دیا۔جاوید اختر نے ہر گانے میں اس لمحے کی روح کو اپنے الفاظ سے سمیٹ لیا تھا۔ مثال کے طور پر پہلا پیار جو ’ہمیں تم سے محبت ہو گئی ہے‘ میں نظر آتا ہے۔یا جب گیت نگار لکھتا ہے ’اے لمحے جب تم چلے گئے، بس تھوڑا انتظار کرو۔ میں بھی جاتا ہوں، ذرا ان سے ملو۔ جو باتیں میرے دل میں ہیں وہ بتاؤں۔ تو چلو چلتے ہیں۔‘شادی کی رات سرحد پر جانے کے احکامات کے بعد وقت سے چند لمحے چراتے ایک ایسے فوجی کی کہانی ہے جو جانتا ہے کہ صبح ایک ایسا منظر لے کر آئے گی جس کے بعد وہ کبھی گھر واپس نہیں آسکتا۔اس کے پاس صرف صبح تک کا وقت ہے اور وقت اس کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ روپ کمار راٹھوڈ کی آواز میں گایا گیا یہ گانا بہت مقبول ہوا۔اور اس سے بھی بڑھ کر وہ گانا جو اس وقت ایک طرح کا قومی ترانہ بن چکا تھا ’سندیسے آتے ہیں۔‘ نو منٹ لمبا گانا اور گانے میں پروئے ہوئے ان گنت جذبات۔کیا بارڈر صرف ایک جنگی فلم ہے یا یہ بھی ایک ایسا کینوس ہے جو رشتوں کو بْنتا اور پالتا ہے؟ جب آپ ’سندیسے آتے ہیں‘سنتے ہیں تو ہر سپاہی کا ایک الگ چہرہ ہوتا ہے، ایک الگ جذبہ ہوتا ہے جو جنگ سے باہر نکلتا ہے، یہ گانا ایک دوست، بیٹے، عاشق، ایک کے جذبات کو باندھ کر ایک خط میں بْنا گیا ہے۔جاوید اختر کا لکھا ہوا یہ گانا روایتی گانوں کی روایت سے بالکل مختلف انداز میں لکھا گیا ہے۔ سونو نگم اور روپ کمار راٹھور کی آوازیں سننے کے بعد ہی یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔کسی بھی فلم کی طرح بارڈر میں بھی اصل جملوں کے علاوہ بہت سی چیزیں سنیما کے حساب سے بڑھائی اور کم کی گئیں اور کسی جنگ کی طرح موت کے سائے بھی میدان پر نظر آتے تھے۔بریگیڈیئر چاند پوری نے بی بی سی کو بتایا، ’موت ہمیں یقینی طور پر نظر آ رہی تھی۔ جب 40-50 ٹینک آپ کو گھیر لیتے ہیں اور ہر ٹینک کے پاس مشین گنیں ہوتی ہیں اور اسے دو کلومیٹر تک مارتے ہیں، تو اس دائرے سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘’’میرے لیے ایسی صورتحال میں فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا، نہ میں عہدے سے بھاگ سکتا تھا اور نہ ہی مجھے حکم آیا کہ جب پاکستان کی فوج آئے تو تم بوریا بستر اٹھا کر گھر بھاگ جاؤ۔ وہاں لڑنا تھا اور میں لڑنے کے لیے تیار تھا، میرے سپاہی سب تیار تھے، میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی، وہ بھی خود کو ٹینکوں میں گھرے ہوئے دیکھ رہے تھے۔‘’میں نے انہیں گرو گوبند سنگھ اور ان کے بیٹوں کی شہادت کی مثال دی اور کہا کہ اگر ہم جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تو یہ پوری سکھ برادری پر دھبہ ہوگا۔ میرے فوجیوں نے لڑائی کا فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر میں پوسٹ سے ہٹ جاؤں تو آپ سب 120 جوان مجھے گولی مار دینا۔‘دونوں حریف ملکوں کے درمیان جنگ کے موضوع پر بنی اس فلم پر پاکستان میں حسب توقع رد عمل آیا۔ پاکستان مخالف مواد پر یہاں پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور یہی کچھ اس فلم کے ساتھ بھی ہوا۔چونکہ اس فلم کے گانے بہت زیادہ پسند کیے گئے اس لیے پاکستانی شائقین نے اس کے گانوں کی آڈیو کیسٹس بڑی تعداد میں خریدیں۔اْس زمانے میں ویڈیو اور آڈیو کیسٹس فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اچھی موسیقی کی وجہ سے لوگوں میں فلم دیکھنے کا تجسّس تھا اس لیے اس کی پائریٹڈ کاپیز حاصل کی گئیں جن کی مزید کاپیاں وی ایچ ایس کیسٹس پر بنا کر دیکھنے کے لیے کرائے پر دی جاتی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فلم بین اگرچہ فلم کے موضوع پر نالاں تھے لیکن اس کے لوازمات کو بھی سراہ رہے تھے ’لوگ کہانی، اداکاروں اور گانوں کی تعریف تو کرتے لیکن پاکستان مخالف ہونے پر برا بھلا بھی کہتے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسا شاید اس لیے تھا کہ جو حالات اور جذبات اس میں فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے دکھائے گئے تھے وہ لگ بھگ پاکستانی فوجیوں کے بھی تھے۔
جنگی فلمیں:جنگ پر بننے والی فلموں کی بات کریں تو اس سے قبل چیتن آنند نے 1962 کی ہند چین جنگ پر فلم حقیقت بنائی تھی جس میں لداخ میں تعینات انڈین فوجیوں کا ایک چھوٹا دستہ اور سامنے ایک طاقتور فوج ہے۔حقیقت اور بارڈر اگرچہ مختلف مزاج کی دو فلمیں ہیں لیکن دونوں میں کچھ مماثلتیں بھی ہیں۔آپ نے کیفی اعظمی کا لکھا ہوا اور مدن موہن کی موسیقی سے مزین یہ گانا سنا ہوگا جب لداخ کے مشکل حالات میں بیٹھے فوجی یہ گانا گاتے ہیں۔
’میں اسے بھولنے پر مجبور ہو گیا ہو گا‘:’سندیسے آتے ہیں‘ اور ’ہوکے مجبور میرے…‘ ان دونوں گانوں میں 58 سال کا فرق ہو سکتا ہے لیکن جذبات ایک جیسے ہیں۔بارڈر نے ایک مختلف قسم کا جنگی سانچہ قائم کیا، ایکشن، میلو ڈرامہ، بھاری مکالمے، حب الوطنی اور اسے آج کی فلموں میں کئی گنا استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن ’بارڈر‘ جیسی کامیابی بہت کم فلموں کو ملی۔جے پی دتہ کی اپنی فلم ایل او سی کارگل، ٹینگو چارلی، مشن کشمیر، لکشیا، کیسری ایک لمبی فہرست ہے۔ تاہم، گذشتہ سال کا شیر شاہ اور اوڑی، دی سرجیکل اٹیک کامیاب رہیں۔