روس کے وحشیانہ حملوں کے سبب یوکرین کو مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے، نیٹو

برسلز،جون۔نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ نیٹو کے ارکان کو یوکرین کی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر روس نے یوکرین کی افواج سے کہا ہے کہ وہ اپنی احمقانہ مزاحمت بند کریں اور ہتھیار ڈال دیں۔ روس نے 15جون بدھ کے روز اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ سیویروڈونٹسک کے اسٹیل پلانٹ اور اس کے آس پاس موجود یوکرین کے فوجیوں کو اپنی مزاحمت ختم کرنے کے ساتھ ہی ہتھیار بھی ڈال دینا چاہیے۔ روسی نیشنل ڈیفنس مینجمنٹ سینٹر کے سربراہ میخائل میزینٹسیف نے انٹر فیکس نیوز سے بات چیت کے دوران کہا کہ روس نے سیویروڈونٹسک میں ایک کیمیکل پلانٹ کے اندر تعینات یوکرینی فورسز سے کہا ہے کہ وہ ماسکو کے مقامی وقت، صبح آٹھ بجے سے اپنی احمقانہ مزاحمت بند کر دیں اور ہتھیار ڈالنا شروع کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہاں پھنسے عام شہریوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قائم کی گئی راہداری کے ذریعے باہر نکلنے کی بھی اجازت ہو گی۔یوکرین کا کہنا ہے کہ اس وقت 500 سے زیادہ عام شہری بھی فوجیوں کے ساتھ اس آزوٹ کیمیکل فیکٹری کے اندر پھنسے ہوئے ہیں، جہاں اس کی افواج کئی ہفتوں سے روسی بمباری اور حملوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ روسی حملے کی وجہ سے سیویروڈونٹسک کے بہت سے شہر اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ چونکہ یوکرین روس کے، وحشیانہ حملے کا مقابلہ کر رہا ہے، اس لیے مغربی ممالک کو یوکرین کے لیے مزید بھاری ہتھیار بھیجنا چاہیے۔اسٹولٹن برگ نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ نیٹو پہلے سے ہی اپنی ترسیل میں، اضافہ کر رہا ہے اور اس سلسلے میں تعاون کو مزید مربوط کرنے کے لیے حکام بدھ کے روز برسلز میں میٹنگ بھی کریں گے۔منگل کے روز یوکرین کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اس نے جس مقدار میں ہتھیاروں کی درخواست کی تھی اس کا صرف ایک حصہ ہی اسے مل پا یا ہے۔ ادھر پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نے کہا ہے کہ مغرب کییف کی حمایت کے لیے کافی کام نہیں کر رہا ہے۔ اس دوران نیٹو کے سات ممالک نے اس فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی سویڈن اور فن لینڈ کی کوششوں کے لیے اپنی حمایت کا وعدہ کیا۔اس حمایت کا اظہار ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے کی ہیگ میں سرکاری رہائش گاہ پر ایک اجتماع کے بعد ہوا، جس کی میزبانی ان کے ڈینش ہم منصب میٹے فریڈرکسن نے کی۔ اس موقع پر رومانیہ کے صدر اور بیلجیئم، پولینڈ، پرتگال اور لاتویا کے وزرائے اعظم بھی موجود تھے۔یوکرین کے صدر وولودمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرین میں ڈونباس علاقے کا دفاع بہت اہم ہے، کیونکہ اس لڑائی کے نتائج سے ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ آنے والے ہفتوں میں جنگ پر غلبہ کون حاصل کر سکتا ہے۔ زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر یوکرینی عوام سے اپنے یومیہ خطاب میں کہا، ڈونباس میں وہاں رکنا ہی ہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ دنوں میں روسی افواج نے ڈونباس میں پیشقدمی کی ہے اور لوہانسک کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔ تاہم سیویروڈونٹسک شہر میں اب بھی شدید لڑائی جاری ہے۔

Related Articles