اربیل میں امریکی سفارتخانے کے قریب ڈرون حملہ، تین افراد زخمی
اربیل [عراق]،جون۔عراق کے نیم خود مختار صوبہ کردستان میں انسداد دہشت گردی ایجنسی کے ایک بیان کے مطابق صوبائی دارالحکومت اربیل کے قریب ایک اہم شاہراہ پر ہونے والے ڈرون حملے میں تین افراد زخمی ہو گئے جب کہ حملے کے نتیجے میں متعدد گاڑٰیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔بیان میں بتایا گیا ہے کہ جس مقام پر ڈرون حملہ ہوا وہ امریکی قونصل خانے کی نئی زیر تعمیر عمارت سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ متحدہ عرب امارات کے قونصل خانے اور اربیل کی صوبائی سکیورٹی فورسز’ آسائچ‘ کے ہیڈ کوارٹر سے سینکڑوں میٹر کے فاصلے پر ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اربیل میں بیرمام روڈ پر بدھ کی رات 9 بج کر 35 منٹ پر ایک مسلح ڈرون پھٹا جس کے نتیجے میں تین شہری معمولی زخمی ہوئے، جبکہ ایک ریستوران اور کئی کاروں کو نقصان پہنچا۔کسی گروپ نے ابھی تک حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔دوسری طرف کردستان کے صوبائی وزیر صحت سامان برزنجی نے ایک بیان میں کہا کہ ڈرون حملے میں تین شہری معمولی زخمی ہوئے ہیں جن کا اسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔حملے سے متعلق عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے کردستان کے وزیر اعلیٰ مسرور بارزانی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی بعض شرپسند عناصر کی افراتفری کی منطق کو دوام بخشنے اور ریاستی مقامات پر حملوں کے اصرار کی ترجمانی کرتی ہے۔الکاظمی نے مزید کہا کہ عراقی حکومت شہریوں کو ہر قسم کے ڈرانے دھمکانے اور قانون اور ریاست پر حملوں کو مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت عدم استحکام پیدا کرنے والوں کے تعاقب میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔اربیل میں ڈرون حملے پر عراقی صدر برھم صالح نے بھی اپنا رد عمل جاری کیا۔ انہوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی اور اسے ایک مجرمانہ فعل اور شہریوں کی جان ومال کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی منظم کوشش قرار دیا۔ٹوئٹر پر ایک پیغام میں صدر برھم صالح نے عوامی طبقات کو متحد ہونے اور دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی اداروں کی معاونت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔گذشتہ سال اربیل میں اسی طرح کے کئی حملے ہوئے، جن میں سے اکثر کی ذمہ داری کسی فریق نے قبول نہیں کی۔مئی کے اوائل میں چھ کیٹوشا راکٹ اربیل گورنری میں ایک آئل ریفائنری سے ملحقہ علاقے میں گرے۔ اپریل کے شروع میں اربیل سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع اس ریفائنری کو تین کیٹوشا راکٹوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا تاہم کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔