نوجوانوں کے لئے کامیابی مسلسل محنت کے بغیر ممکن نہیں
تجربہ میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے نوجوان کسی کام کے آغاز میں تو جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ یہ جوش و خروش کم ہوتا جاتا ہے۔ حالانکہ کام کی ابتدا میں کامیابیاں مقدر نہیں بنتیں، کام کو پائے تکمیل تک پہنچانے اور کامیاب ہونے کے لئے انتھک محنت کرنی پڑتی ہے، مگر نئی نسل کا المیہ ہے کہ وہ فی الفور نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے، جب نوجوانوں کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے وت وہ ہمت ہار کر مایوس ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیے! خواب پورے کرنے اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے نیندیں اڑانی پڑتی ہیں، کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر راستے میں آنے والی پریشانیوں اور ناکامیوں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہیں گے تو منزل مقصود پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج کل میڈیا کی مقبولیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے کئی نوجوان اخبارات کے لئے لکھنا چاہتے اور بڑے کالم نگاروں کی طرح مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں لیکن دوچار تحریریں مسترد ہونے کے بعد ہی وہ ہمت ہار جاتے ہیں، حالانکہ جب تک آپ کا مطالعہ و مشق نہ ہو تب تک تحریر میں نکھار نہیں آسکتا، لیکن ایسی محنت کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ اسی طرح بہت سے طالب علم امتحان سے چند روز قبل پڑھائی شروع کرکے یہ سوچتے ہیں کہ کہ وہ نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کرلیں گے، جب رزلٹ آنے پر مایوسی ہاتھ لگتی ہے تو شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری محنت رنگ نہیں لائی۔ حالانکہ انہیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے ساتھ مستقل مزاجی میں پوشیدہ ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جب کسی پتھر پر ایک ہی جگہ مسلسل پانی گرتا ہے تو اس میں نشان پڑ جاتا ہے، بالکل اسی طرح اگر کسی کام کو کرنے کا پختہ ارادہ کر لیں اور جاں فشانی سے اسے مکمل کرنے کی تگ و دو میں لگ جائیں تو ایک نہ ایک دن کامیابی ضرور ملتی ہے۔ عصر حاضر میں دیکھا گیا ہے کہ نوجوان ذرا سی ناکامی پر مایوس ہوکر ہمت ہار جاتے ہیں، کوئی کام تسلسل سے نہیں کرتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ جو افراد مستقل مزاج نہیں ہوتے، وہ کبھی منزل نہیں پاتے۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں، اگرچہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی خواہش ہونا نئی بات نہیں۔ پھر بھی بار بار متبادل راستے ڈھونڈنا منزل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرت مستقل مزاج اور محنتی انسان پر ضرور مہربان ہوتی ہے۔ ہم سوچیں کہ اگر سائنس دان پہلا تجربہ ناکام ہونے پر ہمت ہار جاتے اور محنت کرنا چھوڑ دیتے تو دنیا میں نت نئی ایجادات کیا ہوسکتی تھیں؟ آج ہم جب ایجادات کے بغیر کی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے، ان کے موجدوں نے اَن گنت بار ناکامیوں کا سامنا کیا ہوگا، ہزارہا تجربات کیے ہوں تب کہیں جاکے کامیابی ان کے نصیب میں آئی۔ صرف جہد مسلسل ہی کا ثمر ہے کہ آج کا انسان زمین، آسمان، کوہسار و صحرا اور ہوا و پانی غرض ہر شے کو مسخر کرچکا ہے اور یہ سب کچھ مستقل مزاجی اور عزم مصمم کی بہ دولت ممکن ہوا ہے۔