امریکہ: ٹیکساس کے اسکول میں فائرنگ سے بیس سے زائد افراد ہلاک
ٹیکساس،مئی۔امریکی ریاست ٹیکساس کے اسکول میں ہونے والی فائرنگ سے 19 بچے اور ایک استانی سمیت دو بالغ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ اس واردات کے بعد صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر بندوق سے متعلق سخت قوانین کا مطالبہ کیا ہے۔امریکہ میں حکام کا کہنا ہے کہ منگل کو جنوبی ریاست ٹیکساس کے ایک ابتدائی اسکول میں فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 19 بچے اور دو بالغ افراد ہلاک ہوگئے۔ ریاست کے گورنر گریگ ایبٹ کے مطابق اس واقعے میں مشتبہ حملہ آور کی بھی موت ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا ”خیال یہ کیا جاتا ہے کہ اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں وہ شخص ہلاک ہوا۔” فائرنگ کا یہ واقعہ یووالڈے کے اس چھوٹے شہر میں پیش آیا جہاں تقریباً 16,000 افراد رہتے ہیں، جس میں ایک بڑی لاطینی کمیونٹی بھی شامل ہے۔ یہ میکسیکو کی سرحد کے قریب سان انٹونیو سے تقریباً 137 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔گورنر ایبٹ کا کہنا تھا کہ 18سالہ مشتبہ حملہ آور اسی قصبے کا مقامی رہائشی تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہینڈگن اور ایک رائفل تھی جس سے اس نے لوگوں پر گولیاں چلائیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار، سومی سومسکندا نے بتایا کہ ”ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شوٹر جائے وقوعہ پر اپنی کار لے کر پہنچا اور اپنی کار چھوڑ کر فائرنگ شروع کر دی۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے طلباء میں دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت کے طالب علم تھے، یعنی ان کی عمریں تقریباً سات سے 11 سال کے درمیان تھیں۔امریکی صدر جو بائیڈن نے، ”تشدد کی اس بے ہودہ کارروائی کے متاثرین کے لیے بطور احترام” وائٹ ہاؤس، تمام فوجی اڈوں، بحری جہازوں اور امریکی سفارت خانوں پر امریکی پرچم کو سرنگوں کرنے کا حکم دیا ہے۔صدر جو بائیڈن ایشیا کے پانچ روزہ دورے سے واشنگٹن واپس لوٹ رہے تھے، تبھی یہ واقعہ پیش آیا۔ امریکہ پہنچنے کے بعد انہوں نے منگل کو ایک جذباتی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ خبر واشنگٹن واپسی کے لیے 17 گھنٹے کی پرواز کے دوران ملی، تو ان کے دل میں یہ بات کھٹکی کہ آخر، ”اس قسم کے بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات دنیا میں کہیں اور بھی ہوتے ہیں، آخر کیوں؟”ان کا مزید کہنا تھا، ”بحیثیت قوم ہمیں یہ پوچھنا ہے کہ خدا را، آخر ہم بندوق کی لابی کرنے والوں کے سامنے کب کھڑے ہوں گے؟” امریکی کانگریس متعدد کوششوں کے باوجود بندوق پر کنٹرول سے متعلق قانون سازی میں ناکام رہی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اس طرح کی مسودہ قانون کو روکنے کی بڑی وجہ امریکہ کی ‘نیشنل رائفل ایسوسی ایشن’ کی اس طاقتور لابی کا دباؤ ہے، جو بندوق پر کنٹرول کی سخت مخالف ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا، ”وقت آگیا ہے کہ اب اس درد کو عمل میں تبدیل کر دیا جائے۔”تقریباً ایک دہائی قبل کنیکٹی کٹ کے سینڈی ہْک علاقے کے ایک اسکول میں اسی طرح کے شوٹنگ کے ایک واقعے میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کے بعد سے منگل کو ہونے والی فائرنگ کا یہ واقعہ امریکی گریڈ اسکول میں ہونے والے سب سے مہلک حملوں میں سے ایک ہے۔ بائیڈن نے کہا، ”مجھے کنیکٹی کٹ کے ایک گریڈ سکول میں کھڑے ہوئے 10 برس ہو چکے ہیں۔۔۔۔ تب سے لے کر اب تک، اسکول کے کیمپس میں 900 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں۔” یہ حملہ ریاست نیویارک کے دوسرے سب سے بڑے شہر بفلو کے ایک سپر مارکیٹ میں ہونے والے حملے کے دو ہفتے سے بھی کم وقت میں پیش آیا ہے۔ بفلو میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 10سیاہ فام افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔امریکہ کو مسلسل کئی برسوں سے بار بار اس طرح کی بڑے پیمانے کی شوٹنگ، ہلاکتوں اور بندوق کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں اس طرح کے فائرنگ کے واقعات میں 19 ہزار 350 افراد ہلاک ہوئے، جو اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں 35 فیصد کا اضافہ ہے۔