کم سنی میں شادیوں کی اجازت کا بل جمع کرانے پر صومالیہ میں شور
موغہ دیشو،صومالیہ میں کم سن بچیوں کی شادی کو قانونی شکل دینے سے متعلق ایک قانون ساز کی جانب سے پارلیمان میں جمع کرائے گئے بل کے بعد شدید بحث جاری ہے۔13 سالہ صومالی بچی حفصہ کی شادی اس کے والد نے سو ڈالر کے عوض ایک شخص سے کر دی تھی۔ حفصہ اور ان کی والدہ کے مطابق دو برس تک یہ شخص حفصہ کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا اور جنسی زیادتی کرتا رہا اور پھر کہیں جا کر اسے اس بات پر مائل کیا گیا کہ وہ حفصہ کو طلاق دے دے۔حفصہ کے مطابق، ”وہ شخص میرے ساتھ سوتا تھا اور ہمیشہ مجھے ہپٹتا تھا۔ میں اس بات پر افسوس کرتی تھی کہ میں پیدا ہی کیوں ہوئی تھی۔‘‘صومالیہ میں لڑکیوں کی شادیوں کی عمر سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے، تاہم رواں ماہ صومالی صدر کے ایک قریبی ساتھی نے ایک قانونی بل پارلیمان میں جمع کرایا ہے، جس کے تحت شادی کے لیے قانونی عمر کو بلوغت سے جوڑا گیا ہے، جو صومالیہ میں بعض بچیوں کے لیے دس برس کی عمر ہے۔رواں برس کروائے گئے ایک حکومتی سروے کے مطابق ملک میں قریب ایک تہائی بچیاں ایسی ہیں، جن کی شادی اٹھارہ برس سے کم عمر میں کی گئی، جب کہ ان میں سے بھی نصف وہ ہیں، جن کی شادی کے وقت عمر پندرہ برس سے بھی کم تھی۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی خاتون ترجمان دیپا پانڈیان کے مطابق، ‘‘بعض خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی اس لیے جلد کر دیتے ہیں تاکہ خود پر معاشی بوجھ کم ہو یا شادی سے کچھ پیسے وصول ہو جائیں۔‘‘صومالیہ اس وقت سیاسی بحران کا بھی شکار ہے، یہاں گزشتہ ماہ وزیراعظم کو برطرف کر دیا گیا اور لگتا یوں ہے کہ رواں برس ملک میں ہونے والے مجوزہ انتخابات بھی التوا کا شکار ہو جائیں گے۔ فی الحال یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آیا پارلیمان اس بل پر ووٹنگ کرے گی یا نہیں، تاہم صومالیہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور متعدد قانون سازوں نے اس بل کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قانون ساز اور انسانی حقوق کی کارکن سحرا عمر مالین کے مطابق، ”صومالی قانون اسلام کی بنیاد پر ہے۔ اسلام شادی کو ہوش و حواس سے کیے جانے والے فیصلے سے جوڑتا ہے، ہمارے ملک میں اس مچیورٹی کی عمر 18 برس ہے اور یہی کسی لڑکی کی شادی کے لیے کم سے کم عمر بھی ہونا چاہیے۔‘‘