یوکرین کو بھاری جنگی سازو سامان فراہم کرنا جنگ میں شمولیت نہیں‘

برلن،اپریل۔جرمنی کے وزیر برائے انصاف کا کہنا ہے کہ یوکرین کو فوجی ٹینک، ہیلی کاپٹر وغیرہ جیسا بھاری جنگی ساز و سامان فراہم کرنا روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے مترادف نہیں ہے۔اس سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے جرمنی میں یہ بحث جاری ہے کہ یوکرین کو کس قسم کا جنگی ساز و سامان دیا جائے اور وہ سامان یوکرینی فوجیوں تک کیسے پہنچایا جائے؟کییف حکومت روسی حملے کے بعد سے جرمنی پر اسلحے کی فراہمی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔ یوکرینی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جرمنی کی جانب سے اسلحے کی فراہمی سے وہ روس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔تاہم جرمن چانسلر اولاف شولس نے یوکرین میں بھاری عسکری ساز و سامان جیسا کہ ہیلی کاپٹر، طیارے اور ٹینک بھیجنے کی حامی ابھی تک نہیں بھری، حالانکہ ان کی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعتیں ایف ڈی پی اور گرین پارٹی کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ جرمنی کو یوکرین کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔
فری ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے انصاف مارکو بشمان نے جرمن اخبار ویلٹ ام سونٹاگ‘ کو ایک انٹریو میں بتایا کہ بین الاقوامی قانون اسلحے کی فراہمی کو جنگ میں شمولیت نہیں ٹھہراتا۔ان کا کہنا تھا، اگر یوکرین اپنے دفاع کا قانونی حق رکھتا ہے تو اسے اسلحے کی فراہمی کا مطلب نہیں کہ آپ جنگ میں شامل پارٹی بن جائیں گے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا ذاتی موقف نہیں بلکہ جرمن حکومت کا موقف ہے۔جرمن وزیر خزانہ کرسچن لنڈر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جرمنی اس سال دفاعی امداد کو دو ارب ڈالر تک بڑھا رہا ہے۔ اس کا زیادہ تر حصہ یوکرین کو دیا جائے گا۔جرمنی پر کییف کی جانب سے یہ دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے کہ اس نے روس کے خلاف نرم رویہ اپنائے رکھا۔ کچھ برس قبل یوکرین کی جانب سے نیٹو اتحاد میں شمولیت کی فرانس اور جرمنی کی جانب سے مخالفت کی گئی تھی۔جرمنی کا روسی توانائی پر بھی انحصار بہت زیادہ ہے۔ جب تک روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ نہیں کیا گیا تب تک جرمنی روس کی گیس پائپ لائن نارڈ سٹریم ٹو پر پابندی عائد کرنے میں حق میں نہیں تھا۔ جرمنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب روسی گیس پر انحصار کو مرحلہ وار طریقے سے کم کیا جا رہا ہے۔جرمنی کے وفاقی وزیر برائے انصاف کا کہنا تھا جرمنی کا شمار ان اولین ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے یوکرین میں جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

 

Related Articles