طلباء امتحانات کو تہوار کی طرح لیں: مودی
نئی دہلی، اپریل ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ امتحانات ہماری زندگی کا ایک چھوٹا حصہ ہیں اور ہمیں امتحانات کے سمندر کو پار کرنے کے بعد ساحل پر ڈوبنے کے خوف کو دور کرتے ہوئے امتحانات کو ایک تہوار کی طرح سمجھنا چاہیے۔جمعہ کو یہاں’ پریکشا پہ چرچا‘ پروگرام میں مسٹر مودی نے امتحانی تناؤ پر قابو پانے اور اعتماد پیدا کرنے کا منتر 9ویں سے 12ویں جماعت کے اسکولی طلبہ کے ساتھ شیئر کیا اور طلبہ سے بات چیت کی اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔انہوں نے کہاکہ جتنا آسان روٹین عام دنوں میں رکھتے ہیں،حسب معمول امتحان کے دوران بھی ویساہی روٹین رکھیں۔ بہت زیادہ اضافہ اور گھٹاؤ آپ کو پریشان کرے گا۔ اگر کوئی دوست کوئی کام کرے تو مجھے بھی کرنا چاہیے، یہ نہ کریں۔ آپ جو کچھ کرتے رہے ہیں، جس طرح سے آپ پڑھ رہے ہیں اور تیاری کر رہے ہیں اسے جاری رکھیں۔کورونا کے دور میں آن لائن اسٹڈیز کی وجہ سے طلباء کو درپیش مسائل سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پڑھائی کا میڈیم وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، مسئلہ میڈیم کا نہیں دماغ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے ہم چیزوں کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، آن لائن پانے کے لیے ہے اورآف لائن حاصل کرنے کے لیے ہے۔مسٹر مودی نے کہاکہ غلطی آن لائن یا آف لائن کی نہیں ہے۔ آن لائن سیکھنے کے مواد کو شامل کرنے سے آپ اپنے سیکھنے میں کچھ نیا شامل کر سکیں گے۔ اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے آن لائن کا استعمال کریں اور جو کچھ آپ آن لائن سیکھتے ہیں اسے آف لائن حاصل کرنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آن لائن میں آپ کا دماغ بھٹکتا ہے ، تو وہاں ایسے اوزار موجود ہیں جو آپ کو نظم و ضبط میں رکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی حکومت نے نہیں بلکہ ملک کے شہریوں، طلباء اور اساتذہ نے ملک کے مستقبل کے لیے تیار کی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ کھیل پہلے ایک غیر نصابی سرگرمی ہوا کرتے تھے۔ لیکن این ای پی میں اسے تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس سے طلباء کو اپنے مدمقابل کو سمجھنے کی طاقت ملتی ہے۔انہوں نے کہا کہ 20ویں صدی کی سوچ، اس وقت کا نظام اور پالیسیاں 21ویں صدی میں آگے نہیں بڑھ سکتیں اس لیے ہمیں اپنی تمام پالیسیوں کو 21ویں صدی کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ اگر ہم نے خود کو ترقی نہیں دی تو ہم جمود کا شکار ہو جائیں گے اورپیچھے رہ جائیں گے۔ مودی نے والدین اور اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ اپنے خوابوں اور خواہشات کا بوجھ بچوں پر نہ ڈالیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ بچوں کے ذریعے اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اساتذہ کو لگتا ہے کہ انہیں جلد از جلد نصاب مکمل کرنا چاہیے۔ ہم بچوں کی خواہشات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ہم ان کی جبلتوں اورصلاحیتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ ٹھوکریں کھاتا ہے، ہر بچے میں ایک خاص طاقت ہوتی ہے، یہ آپ کی خامی ہے کہ آپ اپنے بچوں کی طاقت اوران کے خوابوں کو نہیں سمجھ پاتے، وہاں سے دوری بنتی ہے۔ اس لیے آپ اپنےبچے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔وزیر اعظم نے طلباء سے کہا کہ وہ سنیں اور سمجھیں کہ ان کے والدین اور اساتذہ کیا کہتے ہیں، لیکن اپنی اندرونی جبلت کو پہچانیں۔ شروع میں رکاوٹیں آئیں گی لیکن پھر گھر والوں کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ انہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ اپنی کوتاہیوں پر توجہ نہ دیں اور کوشش کریں کہ ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔مسٹر مودی نے کہاکہ انسپیریشن کا کوئی انجیکشن نہیں ہے، جسے آپ لگائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ طلباء کو پہلے خود جاننا چاہیے کہ وہ کن چیزوں سے مایوس ہو جاتے ہیں؟ کون سی چیزیں آپ کو آسانی سے متاثر کرتی ہیں؟ خود شناسی کریں، اپنا محاسبہ کریں ۔کبھی بھی کسی سے آپ کا ساتھ دینے کی توقع نہ رکھیں۔ ہر مشکل سے نمٹنے کے لیے خود میں اعتماد پیدا کریں۔انہوں نے کہا کہ حال میں غور و فکر کرنا ضروری ہے ورنہ کچھ یاد نہیں رہے گا۔ جو سب سے بڑی سوغات ہے وہ حال ہے۔جو شخص حال میں رہتا ہے اس کے لیے مستقبل میں کبھی سوالیہ نشان نہیں ہوتا۔ یادداشت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ جب ہم کسی لمحہ کو مکمل طور پر نہیں جیئیں گے تو ہم اسے کھو دیں گے۔ نئی دہلی مسٹر مودی نے کہاکہ امتحان میں دوسروں کی طرف مت دیکھو کہ کون کیا کر رہا ہے، آپ کا دماغ بھٹک جائے گا۔ امتحان میں ذہن کو مکمل طور پر پرسکون رکھیں۔ آنکھیں بند کریں اور گہری سانس لیں۔ جیسے دماغ مستحکم ہوگا یادداشت کے اندر پڑی چیز واضح طور پر نظر آنے لگے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر طلبا نے اپنی تعلیم کو پوری طرح جذب کرلیا ہے، خود کو امتحان کے لیے تیاری کرنے کے بجائے قابل تعلیم یافتہ افراد بنانے پر توجہ دی ہے تو کسی بھی قسم کے امتحان کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ مسٹر مودی نے کہا کہ مقابلہ زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ زندگی میں مقابلے کی دعوت دی جائے۔ یہ خود کو آگے بڑھانے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ ہم اپنا محاسبہ کر کے خود کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ آج اگر مقابلہ زیادہ ہے تو آپشنز بھی زیادہ ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ میں معاشرے کو بتانا چاہتا ہوں کہ بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں، دونوں کو یکساں مواقع دیں، میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر بیٹے 19 کریں گے تو بیٹیاں 20 کریں گی۔ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ہم صفائی کے سفر میں جہاں بھی پہنچے ہیں اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ملک کے لڑکوں اور لڑکیوں کو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پریشان ہے، کیونکہ ہم نے اپنے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، آج اگر میں دریا کو دیکھ سکتا ہوں، درخت کے سائے میں کھڑا ہونے کے قابل ہوں تو میرے آباؤ اجداد نے میرے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ میرے بعد آنے والی نسلوں کوبھی کچھ دینا میری ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اگر آپ زندگی میں خوشی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم کسی میں خوبیاں دیکھتے ہیں تو ہم اس کے پجاری بن جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اسے طاقت ملتی ہے، ہمیںبھی طاقت ملتی ہے۔ جہاں بھی ہم کوئی اچھی چیز دیکھیں، اس پر غور کریں، حسد کو بڑھنے نہ دیں۔ اگر آپ میں طاقتوں کو جاننے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو ان خصوصیات کو سامنے لانے کی صلاحیت خود بخود پیدا ہو جائے گی، زندگی میں جہاں بھی موقع ملے، جو قابل ہے اس کے تئیں آپ کا جھکاؤ ہونا چاہئے۔ دماغ میں کبھی انتقام کا جذبہ نہیں ہونا چاہئے۔وزیر اعظم نے طلبا سے کہا کہ’ پریکشا پہ چرچا ‘پروگرام سے بچے کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم، لیکن وہ ذاتی طور پر بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے درمیان آ کر 50 سال چھوٹا ہو جاتا ہوں۔ میں آپ کی عمر سے کچھ سیکھ کر بڑا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں آپ کی امنگوں کو سمجھتا ہوں، اسی لیے یہ پروگرام میرے لیے کام کر رہا ہے۔ میری صلاحیتوں کو بڑھانے میں کام آ رہا ہے۔’پریکشا پہ چرچا‘ کے اس پانچویں ایڈیشن میں وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، وزیر تعلیم، ملک بھر سے بہت سے اسکولوں، طلباء، اساتذہ اور والدین نے بالواسطہ اور بلاواسطہ شرکت کی۔گزشتہ دو سالوں کے دوران کورونا کے دوران’ پریکشا پہ چرچا‘ پروگرام آن لائن منعقد کیا گیا۔