فیس بک کی یہ غلط پالیسی…………….


اس وقت وطن عزیز "بھارت” میں جب سے فیس بک کا دوہرا رویہ کھل کر سامنے آیا ہے ہر طرف ایک عجیب وغریب سا ماحول بن گیا ہے۔ ٹی_وی، نیوز چینل اور اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ خبریں بھی شائع ہورہی ہیں۔ دراصل یہ معاملہ اس وقت سنگین ہوگیا جب مشہور امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” نے اس سنسنی خیز حقیقت کا انکشاف کیا کہ فیس بک نے آر ایس ایس خصوصاً اس کی سب سے مضبوط پارٹی "بی جے پی” کی مدد کی ہے۔ سن ۴۱۰۲ء￿ اور ۹۱۰۲ء￿ کے الیکشن میں بی جے پی پارٹی کی کامیابی کے پیچھے جہاں کئی ہم راز ہیں وہی فیس بک کی معاونت کا بھی ہے۔ ملک بھر کے مختلف تجزیہ نگاروں نے یہ بات بھی کہی ہے کہ جب سے ” وال اسٹریٹ جرنل” نے فیس بک کی دہری پالیسی کو طشت از بام کیا ہے، فیس بک بالکل سیاسی اکھاڑے میں آ گیا ہے۔خیر، اب جب کہ یہ خبر کھل کر سامنے آئی ہے تو فیس بک مالکان کی اندرونی و بیرونی ساری خباثتیں بھی کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ سینئر صحافی اور مصنف پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا نے بھی فیس بک کے حوالے سے جب اپنی کتاب میں بی جے پی اور فیس بک کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا تھا تو انھوں نے بھی یہ کالی حقیقت دنیا کے سامنے لا کر رکھ دیا تھا کہ گزشتہ دو پارلیمانی انتخابات( ۴۱۰۲ و ۹۱۰۲) کو واٹس ایپ اور فیس بک نے بہت متاثر کیا ہے۔ آپ یہ بھی جان لیں کہ بھارت میں فیس بک انچارج "انکھی داس” ہیں، ان پر الزام ہے کہ انھوں نے فیسبک پالیسی کو محض اس لیے نظر انداز کر دیا کہ کہیں User,s نہ کم ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تلنگانہ کے بی جے پی پارٹی کے متعصب ممبر راجہ سنگھ، جیسے لوگوں کے نفرتی پوسٹ علم میں آنے کے باوجود ڈیلیٹ نہیں کیا۔
میرا اپنا ماننا ہے کہ انڈیا میں میں ٹیکنالوجی ذرائع میں سے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا فیس بک ہی ہے۔ اس لیے کہ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں فیس بک کے ۰۴، کروڑ صارفین اور ۰۹، کروڑ رائے دہندگان ہیں۔ اب بھلا بتائیں کہ ۰۳۱، کروڑ باشندگان وطن میں سے جب اتنی بڑی تعداد فیس بک استعمال کر رہی ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اسے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ کے طور پر جانتے ہیں، جہاں آپ اپنی بات آسانی کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مجھ جیسے نہ جانے کتنے ہی ایسے سادہ دل بندے ہیں جو اب تک فیس بک پر اس لیے بھی تکیہ لگائے ہوئے تھے کہ ایک ایسے دور میں جب میڈیا زرخریدغلام بن چکی ہو، صبح و شام بس نفرت کی سوداگری کرنے میں وہ اپنا وقت لگا رہی ہو اور کمزوروں و مزدوروں کی آواز اٹھانے، حکومت کی غلط پالیسی کو اجاگر کرنے اور اس پر سوال پوچھنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی ہو____ ہمارے پاس اس اندھیرے میں بس فیس بک ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں ہم خودمختاری کے ساتھ اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں اور دنیا کو اپنے درد و غم سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ یہ نظریہ اس وقت بھی اور مزید پختگی حاصل کر لیتا تھا جب کہیں ملک کے کسی حصے میں ماب لنچنگ، بلاتکار، شراب نوشی، دنگا اور فساد وغیرہ انگنت جرائم سر ابھارتے ہیں اور ملک کی اسٹریم و مین اسٹریم میڈیا انھیں کوریج دینے کے بجائے بس ہندو مسلم کے مابین دوریاں بڑھانے کے لیے اپنی اسٹوڈیو میں چند بکاؤ افراد کے ساتھ نفرتی ڈبیٹ و بیان بازی کی محفل سجائے بیٹھ جاتی ہیں۔
قارئین! میں اپنی بات کروں تو مجھے اب تک یہی معلوم تھا کہ نفرت انگیز بیان جس سے جمہوری اقدار خطرے میں پڑ جائے، جب فیس بک سے ڈیلیٹ نہ کیا جائے تو وہ بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ۰۱، اپریل ۸۱۰۲ء￿ میں فیسبک بانی مارک زکربرگ کو امریکی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا تھا اور انھیں یہ کہنا پڑا تھا کہ” ہم نے اپنی ذمہ داری کو دھیان سے نہیں لیا یہ ہماری غلطی ہے، جس پر مجھے افسوس ہے۔ میں نے فیس بک شروع کیا ہے اس لیے یہاں جو بھی ہوتا ہے میں اس کا ذمہ دار ہوں، ہمیں لوگوں کے ساتھ اپنے رشتے کو نئے سرے سے دیکھنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اپنی ذمہ داری ٹھیک سے سمجھیں۔ لوگوں کو آپس میں جوڑنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ یہ تعلق مثبت ہے، لوگوں کو صرف آواز دینا کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ اسے دوسروں کو نقصان یا غلط معلومات فراہم کرنے کے لیے استعمال نہ کریں”۔
قارئین! مارک زکربرگ کا بیان دیکھیں تو کتنا خوش کن ہے! مگر آج جب یہ سنسنی خیز حقیقت سامنے آئی ہے تو پتہ چلا کہ یہ بس وقتی لالی پاپ کے زیادہ کچھ نہیں تھا، تا کہ وہ حالات کو سازگار بنا کر پھر سے وہ اپنا کام مزید مستحکم طور پر انجام دے سکیں۔ اگر مارک زکربرگ کے اس بیان پر پہلے ہی سے عمل کیا جاتا تو کیا ہے ممکن تھا کہ آج بھارت میں انکھی داس کی سربراہی میں یہ گھناؤنا عمل انجام پذیر ہوتا؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔اب جب کہ یہ نفرتی بیان ہٹانے کی مانگ کی جا رہی ہیں تو سیاسی لیڈران ایک دوسرے کو کوسنے، الزام لگانے کے ساتھ اپنے اپنے ماضی کی غلطیاں بھی یاد دلائی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں آئی ٹی منتری، روی شنکر پرساد اور کانگریس صدر، راہول گاندھی کے ٹوئٹ دیکھنے لائق ہیں۔
معاملہ ہذا کے تحت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح امریکہ و یورپ کے سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرنے کے پاداش میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے، اسی طرح ہمارے ملک میں بھی پابندیاں عائد کی جاتیں، شرپسندوں کی حمایت کرنے اور انھیں بڑھاوا دینے کے بجائے ان کی ذاتی آئڈی اور فیس بک پیج بلاک کر دیا جاتا۔ مگر افسوس! کہ یہاں ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس سنسنی خیز انکشاف کی روشنی میں آپ غور و فکر کریں کہ کیا اس وقت ملک بھر میں جو بھیانک ماحول بنتا جا رہا ہے، ہر طرف شرپسندوں کی جو بے قابو بھیڑ دنگے مچاتی پھرتی ہیں، دن دہاڑے کسی بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جارہا ہے اور وہ خاکی وردی والوں سے سانٹھ گانٹھ کر کے اقلیتوں کو جو رات و دن ڈرانے دھمکانے کا کام کر رہے ہیں__ کیا اس میں کہیں نہ کہیں سے فیس بک کی بھی شمولیت کا احساس نہیں ہوتا ہے! یقیناً فیس بک مالکان کی اس سوچی سمجھی سازش کی بدولت جہاں وطن عزیز کی رہی سہی خوبصورتی” جمہوریت” کو زک پہنچتا ہے وہی اس سے کہیں زیادہ انسانیت شرمسار ہو رہی ہے۔
اس لیے اب ایسے بھیانک وقت میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ حکومتِ وقت اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے، فیس بک مالکان کو مثبت پالیسی کے تحت چلنے کے لیے پابند کرے اور اس کے لیے قانون بنائے، ساتھ ہی ساتھ شدت پسند عناصر، جو نفرت انگیز پوسٹ اور ویڈیوز وغیرہ اپ لوڈ کرتے ہیں ان کی آئی ڈی بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ ہو سکے تو انھیں قانون کا بھی مزہ بھی چکھایا جائے تاکہ اس ملک کی جمہوریت مزید پراگندہ ہونے سے محفوظ ہو سکے۔

 

Related Articles