تعلیم اورکورونا
بالآخر پانچ ماہ کے انتظار کے بعد برطانیہ میں اسکول کھول دئیے گئے ، بچے خوش ہیں اور والدین بچوں سے زیادہ خوش کہ چلوکچھ تو زندگی آگے بڑھی، خصوصا کام کرنے والے والدین کے لئے آسانی ہوگئی کہ کام سکون سے کر سکیں گے،اسکولوں میں ببل بنا دئیے گئے ہیں اور ون وے سسٹم کے تحت بچوں کو اسکولوں میں پڑھنا ہو گا، برطانوی حکومت قرنطینہ کئے جانے والے ممالک کی فہرست میں بھی مسلسل اضافہ کر رہی ہے کیونکہ وزیر اعظم بورس جانسن بقیہ یورپ کی طرح دوسری لہر کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے لیکن اسکول کھلنے کے ساتھ کورونا کیسز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے خاص کر سائوتھ ویسٹ انگلینڈ میں ،لوگوں کی بیزاریت بھی واضح ہے کیونکہ اسکول آنے والے والدین میں بمشکل دو تین ہی ایسے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے جنھوں نے ماسک لگانے کی زحمت کی ہوگی کیونکہ سب نے یہ یقین کر لیا ہے کہ وائرس کھلی ہوا میں نہیں پھیلتا، چلیں مان لیا کہ کھلی ہوا میں وائرس کا دم نکل جاتا ہے لیکن اسکول کیدروازوں پر مارننگ اور ہوم ٹائم پر جس طرح کا رش ہوتا ہے اس میں کھلی تازہ صاف ہوا کا تصور حقیقت سے دور ہی لگتا ہے۔ اتنے بھانت بھانت کے لوگ اوپر سے وائرس ایسا کہ کسی کو پتا نہیں کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہے یا نہیں ،جب تک اثرات نمودار نہیں ہوں یا ٹیسٹ نہیں کروایا جائے۔ روزانہ مختلف گھروں کے لوگ ایک دوسرے سے ملیں گے تو وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا رہے گا ، ویکسین ابھی ایجاد ہوئی نہیں ہے جس کے بارے میں کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا کہ کب تک ہوگی ، اس لئے لوگوں کو خیال کرنا ہوگا،کھلی جگہ ہو، چاہے گروسری اسٹور یا پھر آفس ، ماسک کو عادت بنا لیں ورنہ جس تیزی سے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے فرانس جیسا حال ہونے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے اور پھر دوبارہ سب بند ہوگا اور پھر وہی گھر کی زندگی ہوگی اور کچھ نہیں ، بہت سال پہلے آنے والے اسپینش فلو کے وبائی دور میں بھی یہی ہوا تھا پہلی لہر کے وقت جتنے کیسز اور اموات ہوئیں تھیں ان سے ڈبل دوسری لہر کے آنے کے بعد ریکارڈ کئے گئے تھے کیونکہ لوگ گھروں میں بند رہ رہ کر سخت بور اور پریشان ہوگئے تھے اس لئے لاک ڈاون ختم ہوتے ہی سب باہر نکل پڑے اور پھر جو تاریخ بنی وہ آج ہم پڑھتے ہیں لیکن اس سے سبق نہیں سیکھا۔بلکہ وہی کیا جو اس وقت لوگ کررہے ہیں اور نقصان اٹھایا تھا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت میں اور حال میں بہت فرق ہے اس وقت اتنی جدت نہیں تھی انٹرنیٹ کی سہولت بھی نہیں تھی، اب تو میڈیا چینل بھی بہت ہیں اور انٹرنیٹ ہر کسی کی دسترس میں ہے جس کے ذریعے ہر لمحہ بڑھتے کیسز کی خبر سب کو پہنچ رہی ہیں لیکن پھر بھی لوگ جلد از جلد نارمل زندگی گزارنے کے کے جوش میں اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔