اکھلیش یادو کا اتحاد ایک بار پھر ناکام

لکھنؤ:مارچ۔سال 2017 کے اسمبلی انتخابات سے قبل پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد سماج وادی پارٹی(ایس پی)سربراہ اکھلیش یادو کی انتخابات سے قبل دیگر پارٹیوں سے کئے گئے اتحاد کا یہ لگاتار تیسری بار ہے جب اکھلیش کا اتحاد ناکام ہوا ہے اور پارٹی مع اتحاد کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔سال 2012 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی(ایس پی) نے ملائم سنگھ یادو کی قیادت میں الیکشن لڑا تھا۔ اور ملائم کی قیادت میں پارٹی نے 224سیٹوں پر جیت درج کی تھی جس کے بعد انہوں نے بیٹے اکھلیش یادو کو سیاسی راج پاٹ سونپتے ہوئے ریاست کا وزیر اعلی بنا دیا تھا۔پانچ سال ریاست میں حکمرانی کرنے کے بعد سال 2017 میں انتخابات میں جانے سے قبل اکھلیش نے آل انڈیا کانگریس سے اپنی قیادت میں پہلا اتحاد کیا۔اکھلیش نے اپنی اتحادی پارٹی کو 92سیٹیں دیں اور 311سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے لیکن جب نتائج آئے تو 224سیٹوں کے ساتھ اقتدار کرنے والی پارٹی 47سیٹوں پر سمٹ گئی اور کانگریس کو 7سیٹوں پر جیت ملی۔اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد اکھلیش نے سال 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی کٹر حریف بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) اور راشٹریہ لوک دل سے اتحاد کر کے’مہا کٹھ بندھن‘ کو تشکیل دے کر بی جے پی کو ٹکر دینے کی کوشش کی لیکن یہ اتحاد بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔اور اتحاد کو محض 15سیٹوں مل سکیں۔سال 2019کے لوک سبھا انتخابات میں اکھلیش نے یہ قدم والد ملائم سنگھ یادو کے مرضی کے خلاف جاکر اٹھایا تھا۔ ملائم کی خواہش تھی کی پارٹی تنہا سبھی سیٹوں پر انتخابی میدان میں اترتی۔اتحاد کے ذریعہ اکھلیش یادو کو توقع تھی کہ بی ایس پی کو کور ووٹ ایس پی پر ٹرانسفر ہوگا لیکن ایسا نہ ہوا اورسال 2014 کے انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہ جیت پانے والی بی ایس پی کو 10سیٹیں مل گئیں لیکن ایس پی کے کھاتے میں محض 5سیٹیں آئیں۔اس بار کے اسمبلی انتخابات میں اکھلیش نے ذات پات کی صف بندی کوملحوظ رکھتے ہوئے ، آر ایل ڈی ،اوم پرکاش راج بھر کی قیادت والی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی اور مہان دل جیسی پارٹیوں سے اتحاد کیا لیکن یہ اتحاد بھی پارٹی کو اقتدار سے ہمکنار نہیں کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سال 2017 میں 47سیٹوں پر سمٹنے والی ایس پی کو اس الیکشن میں سنچری لگارہی ہے ۔

Related Articles