یوکرین جنگ: مارتا کی وائرل ویڈیوز جن سے وہ راتوں رات ٹک ٹاک انفلوئنسر بنیں
کیف/ لندن،مارچ۔مارتا وسیوتا یوکرین کے عام شہریوں میں سے ایک ہیں۔ مگر گذشتہ ہفتے سے ٹک ٹاک پر ان کی فالوورز کی تعداد لاکھوں لوگوں تک پہنچ چکی ہے۔وہ اس ویڈیو شیئرنگ ایپ پر اپنی روزمرہ زندگی کی ویڈیوز لگایا کرتی تھیں، جیسے رات کو دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا یا اپنے پسندیدہ گانے پر پرفارم کرنا۔جب روسی افواج نے یوکرین میں مداخلت کی تو وہ اپنی یونیورسٹی کے دوستوں سے ملنے برطانیہ آئی ہوئی تھیں۔یوکرینی دارالحکومت کیئو پر روسی بمباری کی اطلاعات نے انھیں خوفزدہ کر دیا۔ اس کے بعد جو مارتا نے کیا، اس نے انھیں راتوں رات ٹک ٹاک انفلوئنسر بنا دیا۔23 فروری سے وہ یوکرین میں جاری جنگ سے متعلق ویڈیوز پوسٹ کر رہی ہیں اور انھیں لاکھوں لوگ دیکھ رہے ہیں۔ ٹک ٹاک پر بہت سے لوگوں، خاص کر نوجوانوں، کے لیے مارتا یوکرین کے حالات و واقعات کی خبریں لا رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ یہ صرف یوکرین میں یوکرینیوں کے لیے مسئلہ نہیں۔ بلکہ ہر کسی کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔‘مارتا یوکرینی، روسی اور انگریزی زبان میں باآسانی بات کر سکتی ہیں۔جیسے ہی انھوں نے یوکرین میں روسی مداخلت کے بارے میں سنا تو انھوں نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر یوکرینی چینلز کو دیکھنا شروع کر دیا۔ یہ ایپ یوکرین میں کافی مقبول ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’میرا فون ویڈیوز سے بھر چکا ہے۔ یہ وہ تمام خبریں ہیں جو مجھے ملی ہیں۔‘پھر انھوں نے ان ویڈیو سے متعلق کمنٹس دیکھ کر ان کی تصدیق کرنا شروع کر دی۔ ’میں دیکھ سکتی تھی کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ یعنی فی الحال یہی سب کچھ وہاں ہو رہا ہے۔‘تو وہ ان میں سے بعض ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کر کے سونے چلی گئیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں صبح اٹھی اور میں نے ٹک ٹاک دیکھا تو یہ ویڈیوز 90 لاکھ لوگ دیکھ چکے تھے۔‘سیم گریگوری وٹنس نامی سماجی تنظیم کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں اور وہ مختلف بحرانوں کے دوران سوشل میڈیا کے استعمال پر تحقیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک کا ایلگوریتھم موضوعات پر مبنی ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس میں ’مواد آپ کی پسند ناپسند کے مطابق دکھایا جاتا ہے، نہ کہ آپ کی فیڈ سے متعلق۔‘’اگر آپ یوکرین میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں تو آپ کو ایسا مواد دیکھنے کو ملتا ہے جو یوکرین سے ہو یا اس میں یوکرین کی بات کی جا رہی ہو۔‘ان ویڈیوز کی مدد سے مارتا راتوں رات ٹک ٹاک انفلوئنسر بن گئیں۔ ان کی ویڈیوز پر اب تک ایک کروڑ 70 لاکھ لائیکس آ چکے ہیں اور انھیں دو لاکھ فالوورز ملے ہیں۔وہ یہ اعداد و شمار اپنے فون پر سے گن کر بتاتے ہوئے بھی ان پر یقین نہیں کر پا رہیں۔ ’میں اب بھی ان نمبرز کو سمجھ نہیں پاتی۔‘ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ٹک ٹاک صورتحال سے متعلق ویڈیوز ڈھونڈنے کا اچھا ذریعہ ضرور ہے تاہم اس پلیٹ فارم پر غلط معلومات بھی کم نہیں۔مارتا یہ تسلیم کرتی ہیں کہ مصدقہ مواد کی تلاش مشکل ہوسکتی ہے۔ اگر ایک ویڈیو واقعی یوکرین سے ہے اور اس میں لوگ یوکرینی زبان بھی بول رہے ہیں تب بھی یہ ویڈیوز 2014 کی ہوسکتی ہیں جب یہ تنازع مشرقی یوکرین میں شروع ہوا تھا۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ وہ ویڈیوز کی تصدیق میں کوئی ماہر نہیں ہیں۔تاہم ان کی بعض ویڈیوز کو بی بی سی سمیت کئی میڈیا اداروں نے مصدقہ قرار دیا ہے۔وہ سمجھتی ہیں کہ کئی لوگ روایتی ذرائع ابلاغ کی جگہ سوشل میڈیا ذرائع سے ہی خبریں حاصل کرتے ہیں۔ ’کچھ لوگ پیشہ ورانہ صحافیوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ نہ ہی مصدقہ ذرائع کو مانتے ہیں۔‘بطور یوکرین کی ایک نوجوان خاتون وہ وسیع پیمانے پر ناظرین کے رویوں کو سمجھتی ہیں۔ ’اس لیے وہ مجھ پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں اور میری ویڈیوز کو سچ مانتے ہیں۔‘مارتا کا خاندان اب بھی یوکرین میں ہے اور وہ ان کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان ویڈیوز کے پھیلاؤ سے وہ دنیا کی مدد کر رہی ہیں، خاص کر نوجوانوں کی تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔برطانیہ میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ٹک ٹاک ہی ان کا واحد ذریعہ ہے۔