کیسے حق ادا کرینگے ؟
ملت اسلامیہ میں اگر کسی بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتاہے تو وہ اتحاد ملت پر ہے اور اسی اتحاد ملت کا حکم اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ وعلیہ وسلم نے بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ اے مسلمانوں، آپس میں آپ لوگ بھائی بھائی ہو، ایک دوسرے کے ساتھ نہ لڑو ، ایک دوسرے پر کوئی فوقیت نہیں رکھتا اور ایک دوسرے کو بر تر نہ سمجھو ، اللہ کے نزدیک سب ایک ہیں اور سب کے لئے ایک ہی دین ، ایک ہی قرآن ، ایک اللہ اور ایک رسول ہیں۔اللہ کے رسول ? کا یہ پیغام یقیناََ حجتہ الوداع کے موقع پر تھا لیکن یہ پیغام تاقیامت تک کے لئے تقلید کے لئے ہے ، لیکن اللہ کے رسول ? کے بعد جیسے جیسے وقت بدلتا گیااسی طرح سے اختلافات بھی بڑھنیلگے اور یہ اختلافات اس قدر بڑھنے لگے کہ اب مسلمان ہر کام کو بانٹ کر انجام دینے لگاہے۔ آج امت مسلمہ میں ہر کوئی اس بات کی تائید کرتاہے کہ امت میں اتحاد ہو، سب مل کر رہیں کوئی کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کرے ، امن و بھائی چارگی سے رہیں ، جب اس طرح کی باتیں سنتے ہیں ، اس طرح کے مضامین پڑھتے اور اتحاد ملت کے عنوان پر منعقدہ جلسوں میں شرکت کرتے ہیں تو عام مسلمانوں کو خوشی ہوتی ہے کہ چلیں ملت کا شیرازہ بکھرنے سے رہ رہاہے اور مسلمان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج ہماری نظر ایک مضمون پر پڑھی ، جنگ آزادی میں علمائے دیوبند کا کردار ، کچھ ہی دن قبل ہم نے اسی سوشیل میڈیا میں ایک مضمون کا عنوان دیکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جنگ آزادی میں علمائے اہلسنت کا کردار ، اس عنوان میں دیوبندی علماء کی جو لیسٹ دی گئی تھی اس میں نام غائب تھے ، اب اسی طرح سے اور ایک عنوان بھی ہم نے دیکھا ، جنگ آزادی میں جمیعت العلماء کے علماء کا کردار ، اس طرح سے آپ لوگوں نے بھی مضامین دیکھیں ہونگے یا پھر پڑھے بھی ہونگے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جو علماء اس ملک سے انگریزوں کو بھگانے کے لئے کام کررہے تھے کیا وہ علماء اپنے اپنے عقائد کی بنیادپر الگ الگ گروہ بناچکے تھے یاپھر انگریزوں سے لڑتے ہوئے یہ بات چلا چلاکر کہہ رہتے کہ ہم ہندوستانی دیوبندی مسلمان ہیں ، ہم ہندوستانی اہلسنت کے مسلمان ہیںیا پھر جنگ آزادی انگریز بنام جمیعت العلماء کے علماء کہا گیا تھا۔ ہم نے ہمارے بچپن سے اب تک جنگ آزادی کے تعلق سے جو بھی پڑھا ہے اسکا عنوان ہی یہ ہوا کرتا تھا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار یا پھر علماء کا کردار ، ہم نے کبھی بھی مسلکوں کا بٹوارہ جنگ آزادی میں نہیں دیکھا ہے ، لیکن اچانک یہ کیسی تبدیلی آگئی کہ آج ہم جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار یاد کرنے کے بجائے مسلکوں ، عقیدوں اور گروہوں کو بنیاد بناکر اپنے مجاہدین آزادی کو یاد کررہے ہیں ، یہاں یہ بات بھی نہیں کہ ان مجاہدین نے مسلمانوں اور اپنے اپنے عقائد کے ماننے والوں کی آزادی کے لئے جنگیں لڑی تھیں یا پھر مخالفت کی تھی بلکہ انہوںنے تو پورے ملک کی آزادی کے لئے اپنے جان و مال کی قربانی دی تھی۔ افسوس ہوتا ہے جب لوگ اپنے اپنے عقائد کو اسلام پر برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کو نقصانات اٹھانا پڑرہاہے ، اگر اسلام کے ماننے والے اسلام کی تبلیغ کو جاری رکھتے اور عقائد کو ہوا نہ دیتے تو شاید آج فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ نہ ہوتا نہ ہی عرب ممالک انگریزوں کے ٹٹو ہوکر اپنے علماء کو نظر انداز کرتے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ جنگ آزادی میں علمائے دیوبند کا کردار تھا، علمائے اہلسنت کا رول رہا ، علمائے سلف نے بھی قربانیاں دیں اور علمائے جمیعت العلماء کی بھی قربانیاں رہیں ، اب کونسے مسلک کے علماء یا گروہ کے لوگ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کراکر اپنی تاریخ رقم کرینگے۔ کارنامہ انجام دینے والے ساری انسانیت کے لئے جانیں نچھاور کرتے ہیں لیکن اسکا فائدہ اٹھانے والے اسکا کریڈیٹ اپنے اپنے طور پر لینے لگیں گے تو کونسا انصاف ہوگا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنوں میں ہی ایک دوسرے پر ترجیح دینے کے بجائے دوسری قوموں پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کو ہی جنگ آزادی کی تاریخ سے علیحدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر جلسے میں گنے چنے ناموں کا تذکرہ کیا جاتاہے تو ایسے میں ہم مسلمان ہی مجاہدین کا بٹوارہ کرلیں تو کیسے مجاہدین کا حق ادا کرینگے ؟۔۔صرف مجاہدین آزادی کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے وجود کو ہی مٹانے کی سازشیں ہورہی ہے اور ہر جگہ نفسی نفسی کا عالم ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو اب ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ غیروں کے سوشیل میڈیا کے گروپس کا جائزہ لیں تو اس میں ہمیں یوپی یس سی کے اعلانات ، سرکاری نوکریوں کے اعلانات ، متحد رہنے کی ہدایت ، نئی تنظیمیں بنانے اور پرانی تنظیموں سے جڑنے کی ہدایت دی جاتی ہے ، لیکن ہماریسوشیل میڈیا گروپس اور پیجس میں کیا ملتا ہے ایک دوسرے مسلکوں کی توہین ، جذباتی تقریریں ، ناکام لوگوں کے تبصرے ، جو زندگی میں کچھ نہ کرسکے اور روزانہ ناٹک کرنے والے فلمی اداکاروں کے ویڈیوزہی ملتے ہیں ، اسکے علاوہ علماء کی تقاریر بھی مل جاتی ہیں جس کو سننے والے کم ، اگر سنتے بھی ہیں عمل کرنے والے کم ، عمل کرتے بھی ہیں تو ریاکاری کرنے والے زیادہ ملتے ہیں ، بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان چیزوں سے مثبت فائدہ اٹھاتے ہیں اور فعل و قول پر قائم رہتے ہیں۔ امت مسلمہ کو اب اپنی سوچ ، اپنیافکار کو بدلنے کی ضرورت ہے ، ہم ماڈرن مسلمان ہیں نہ کہ زمانہ جاہلیت کے عرب ہیں ،ہمارے نبی نے ہم مسلمانوں کو اپ ڈیٹڈ اور اپ گریڈڈ رہنے کی ہدایت دی ہے ، دین اسلام نے مسلمانوں کو یتیم نہیں بنایا ہے بلکہ قرآن اور حدیث نے ہر مسئلے کا حل بتایا ہے اور معاملے کے لئے مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے ، جب قرآن میں پانچ بنیادی فرائض کے علاوہ پانچ سوسے زائد عملی فرائض کی ہدایت دی گئی ہے تو کیونکہ اس پر عمل نہیں ہورہاہے ، اتحاد بھی تو ہمارا دینی فریضہ ہے تو اس پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔