روس یوکرین تنازع: صدر پوتن کہتے ہیں کہ وہ یورپ میں جنگ نہیں چاہتے

ماسکو،فروری۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ ’صاف ظاہر ہے‘ کہ روس یورپ میں جنگ نہیں چاہتا، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ روس کے سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھا جائے۔روسی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس کے عسکری حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی سرحد کے قریب تعینات فوجیوں میں سے کچھ کو واپس بلا رہے ہیں۔ روسی حکام کی جانب سے اس اعلان کو کشیدگی میں ممکنہ کمی کی جانب پہلے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔تاہم، مغربی ممالک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ابھی تک روسی فوجوں کے انخلاء کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔پوتن کا مسلسل اصرار رہا ہے کہ وہ یوکرین پر کسی قسم کی چرھائی کا منصوبہ نہیں بنا رہے ہیں، لیکن اس وقت سے روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا ہے جب نومبر میں روسی فوجیں یوکرین کی سرحد کے قریب جمع ہونا شروع ہو گئی تھیں۔پوتن کا تازہ ترین بیان جرمنی کے چانسلر اولف شلز کے ساتھ چار گھنٹے کی طویل ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ ملاقات کے بعد جب مسٹر پوتن سے پوچھا گیا کہ جنگ کے امکانات کتنے ہیں تو انھوں نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا ’کیا ہم ایسا چاہتے ہیں یا نہیں؟ صاف ظاہر ہے ہم نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز دے رہے ہیں۔‘صدر پوتن کے تازہ ترین بیان سے پہلے روس نے کہا تھا کہ اس نے یوکرین کی سرحد پر تعینات اپنے ایک لاکھ فوجیوں میں سے کچھ کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔روس کی وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ یوکرین کی سرحد کے قریب وسیع پیمانے پر جنگی مشقیں جاری رہیں گی لیکن کچھ دستے اپنی چھاونیوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔یوکرین نے خبردار کیا کہ جب تک انھیں فوجیوں کی واپس کا ثبوت نہیں مل جاتا وہ اس پر کوئی رد عمل نہیں دیں گے۔ دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ فوجوں کی واپسی کے ثبوت مل جانے کے بعد ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشیدگی میں کمی ہو رہی ہے۔یوکرین کی سرحد کے ساتھ روس نے ایک لاکھ کے قریب فوجی جمع کر لیے تھے لیکن اس نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔یوکرین کی سرحد کے قریب اتنی بڑی تعداد میں روسی فوج کی تعیناتی سے جنگ چھڑ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے اور امریکہ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔روس اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن امریکہ اور مغربی مالک کے اتحاد نے روس کے اس مطالبے کو رد کر دیا تھا۔روس کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ یوکرین کی سرحد کے قریب فوجی علاقوں میں جنگی مشقیں کرنے والے اپنی فوج کے کچھ دستے واپس بلا رہے ہیں۔وزارت دفاع کے ترجمان ایگو کوناشنکو کا کہنا تھا کہ بہت سی جنگی تربیتی مشقیں اور جسمانی ورزشیں جس طرح پلان کی گئی تھیں وہ کی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول کچھ مشقیں جاری ہیں جن میں روس اور بیلاروس کے درمیان ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں جو کہ فروری کی بیس تاریخ تک مکمل کر لی جائیں گی۔اس سے قبل برطانوی حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ واپس بلائے گئے فوجیوں کی تعداد جاننے کے انتظار میں ہیں اور اس کے بعد ہی وہ یہ کہہ سکیں گے کہ حملہ کرنے کی صلاحیت میں کوئی معنی خیز کمی ہوئی ہے یا نہیں۔لیکن یہ اعلان یوکرین اور روس دونوں کے لیے اس کشیدگی میں جیت کا دعوی کرنے کے لیے کافی ہے۔یوکرین کے وزیر خارجہ دومتروں کولیبا نے کہا تھا کہ ہم نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس کو یوکرین پر کوئی مہم جوئی کرنے سے روک دیا ہے۔ روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زکہاروا کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسے دن کے طور پر ’تاریخ میں یاد رکھا جائے گا جب مغرب کا جنگ کا پروپیگنڈہ ناکام ہو گیا تھا۔ وہ کوئی گولی چلے بغیر ہی بے عزت اور رسوا ہو گئے ہیں۔‘اس دوران اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اور منگل کو جرمنی کے چانسلر اولف شلز روس کے صدر ولادمیر پوتن سے ملنے ماسکو پہنچے ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر روس کے صدر ولادمیر پوتن کو یوکرین پر حملہ کرنے سے بعض رہنے کا کہیں گے بصورت دیگر انھیں روس پر سخت پابندیاں لگانے کے بارے میں خبردار کریں گے۔جرمن چانسلر کو اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انھوں نے اس کشیدگی پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا۔ ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ روس سے مغربی یورپ تک گیس پائپ لائن کا منصوبہ نارڈ سٹریم ٹو کا منصوبہ ختم کر دیں گے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یہ کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو یہ منصوبہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔کئی ہفتوں سے روس اور یوکرین کی سرحد سے متواتر یہ خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ روس اپنی فوجوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔اب ماسکو نے اعلان کیا ہے کہ مشقیں مکمل ہو گئی ہیں اور اس کے کچھ دستے اب چھاؤنیوں میں واپس بلائے جا رہے ہیں۔کشیدگی میں ممکنہ کمی کی طرف پہلا اشارہ؟ شاید۔ لیکن احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتنے فوجی اپنا ساز و سامان سمیٹ کر واپس جا رہے ہیں یہ واضح نہیں ہے۔ماسکو مسلسل یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ روس کے حکام نے مغربی ممالک کے ان دعوؤں کو رد کر دیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔صدر پوتن کے ترجمان نے منگل کو کہا کہ کرملن مغرب کے ان دعوؤں کو مذاق میں اڑا دیتا ہے۔ترجمان دمتری پیسکو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات پوتن ان دعوؤں پر ہنستے ہیں۔ اکثر وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ذرا دیکھیں کہ مغربی ملکوں نے جنگ شروع ہونے کے وقت بھی بتایا دیا ہے کہ نہیں۔

Related Articles