اگر روس یوکرائن پر حملہ کرتا ہے تو روس کے خلاف فوری پابندیاں، جرمن چانسلر
برلن،فروری۔جرمن چانسلر اولاف شولس نے روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اب کریملن کی جانب سے فوجی حملہ ‘کسی بھی روز’ متوقع ہے۔جرمن چانسلر اولاف شولس نے اتوار کے روز ماسکو پر زور دیا کہ وہ یوکرائن تنازعے پر کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ کیف اور ماسکو میں رہنماؤں سے اپنی بات چیت سے پہلے جرمن چانسلر نے روس کو متنبہ کیا کہ اگر روس نے اپنے پڑوسی پر حملہ کیا تو اسے ”فوری طور پر” سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔جرمن چانسلر اس بارے میں بات چیت کے لیے کیف اور ماسکو کا دورہ کرنے والے ہیں اور وہ اسی حوالے سے بات کر رہے تھے کیونکہ فوجی حملے کے امکانات اب بہت زیادہ ہیں۔ایک جرمن نیوز میگزین ڈیر اسپیگل نے جمعے کو انٹیلیجنس ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ روسی فوج اس ہفتے بدھ تک یوکرائن پر حملہ کر سکتی ہے۔ تاہم اتوار کو امریکی حکام نے کہا کہ وہ اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ یوکرائن کی سرحد پر اس وقت ایک لاکھ سے بھی زیادہ روسی فوجی تعینات ہیں۔وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے سی این این سے بات چیت میں کہا، ”ہم ایک خاص دن کی مکمل پیشن گوئی نہیں کر سکتے، لیکن ہم کچھ دنوں سے کہتے رہے ہیں کہ ہم اس کی دہلیز پر کھڑے ہیں، اور اب کسی بھی دن روس یوکرائن پر حملہ شروع کر سکتا ہے، ایک بڑی فوجی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔ اس میں اولمپکس کے اختتام سے پہلے ہی آنے والا ہفتہ بھی شامل ہے۔”امریکا کا کہنا ہے کہ ماسکو اب ”کسی بھی وقت” یوکرائن کے خلاف فضائی بمباری شروع کر سکتا ہے۔حالانکہ روس یوکرائن پر حملے سے انکار کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی عسکری سرگرمیاں نیٹو کی جانب سے بڑھتی جارحیت کے سد باب کے لیے ہیں اور وہ یوکرائن پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا ہے۔اولاف شولس نے کیا کہا؟جرمن چانسلر نے کہا کہ ”یوکرائن کے خلاف کسی ایسی فوجی جارحیت کی صورت میں، جس سے اس کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو، وہ سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی جو ہم نے احتیاط سے تیار کی ہیں۔ ہم انہیں نیٹو اور یورپ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر نافذ کر سکتے ہیں۔”جرمن رہنما نے پابندیوں کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم اس سے قبل امریکا اور یورپی یونین پابندیوں کے لیے روسی بینکوں کو نشانہ بنانے کے امکان سے خبردار کر چکے ہیں۔ پابندیوں کے تحت نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کو بھی روکا جا سکتا ہے، جو بحیرہ بالٹک کے نیچے سے گزرتے ہوئے روسی گیس یورپ تک پہنچانے کا منصوبہ ہے۔جرمن چانسلر پیر 14 فروری کو یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور منگل کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ تاہم ایک جرمن ذرائع کے مطابق برلن کو ان مذاکرات سے کسی طرح کے ”ٹھوس نتائج” کی توقع نہیں ہے۔خبروں کے مطابق بعض ذرائع نے بتایا ہے کہ جرمن چانسلر روس پر یہ واضح کریں گے کہ اس معاملے میں مغرب متحد ہے اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں روس پر ”سخت ترین پابندیاں ” لگائی جائیں گی۔یوکرائن نے اپنی سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی پر روس اور اہم یورپی سکیورٹی گروپ کے دیگر ارکان سے فوری طور پر ایک ملاقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا کا کہنا ہے کہ روس فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی وضاحت کی رسمی درخواستوں کو نظر انداز کر چکا ہے اس لیے فوری طور پر میٹنگ بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر روس سکیورٹی سے متعلق واقعی سنجیدہ ہے تو اسے کشیدگی کو کم کرنے اور اسے، سب کی سلامتی کو بڑھانے کے لیے فوجی شفافیت سے متعلق اپنی وابستگی کو پورا کرنا چاہیے۔”ادھر یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی، جنہوں نے جنگ و جدل کے دعووں سے پھیلنے والے ”خوف و ہراس” پر تنقید کی، کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا کہ روس آنے والے دنوں میں حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔اتوار کو انہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے تک فون پر بات کی۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے اس بات چیت میں یوکرائن کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا ہے، اور دونوں رہنماؤں نے ”سفارت کاری اور تدارک کو جاری رکھنے کی اہمیت’پر اتفاق کیا۔
سفارتی پیش رفت کی توقع:ہفتے کے روز ہوائی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ سفارت کاری اب بھی تعطل کو حل کر سکتی ہے۔ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اب روسی حملے کا خطرہ اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ کیف میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو باہر نکالنے کی ضمانت دی جانی چاہیے۔انٹونی بلنکن نے کہا، ”سفارتی راستہ اب بھی کھلا ہے۔ ماسکو کے لیے یہ ظاہر کرنے کا راستہ بھی آسان ہے کہ وہ اس راستے پر چلنے کا متمنی ہے۔ تاہم اس کے لیے اسے کشیدگی بڑھانے کے بجائے کم کرنا چاہیے۔”اس دوران جرمنی سمیت کئی دوسرے ممالک نے اپنے شہریوں کو یوکرائن سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں مغرب کے اعلیٰ سفارت کاروں اور روسی حکام کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور فون پر بھی بات چیت ہوتی رہی ہے تاہم یوکرائن کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو حل کرنے میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت کا اشارہ نہیں ملا ہے۔