ماؤنواز تشدد کے واقعات میں 77 فیصد کمی آئی ہے: حکومت
نئی دہلی، فروری ۔حکومت نے آج راجیہ سبھا میں دعویٰ کیا کہ گزشتہ 12 برسوں میں ماؤ نواز تشدد کے واقعات میں 77 فیصد کمی آئی ہے اور ملک میں ماؤ نواز نظریہ معدوم ہونے کے دہانے پر ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے بدھ کو راجیہ سبھا میں ضمنی سوالات کے جواب میں بتایاکہ بائیں بازو کی انتہا پسندی کی وجہ سے ہونے والے تشدد کے واقعات میں 77 فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ سال 2009 میں اس طرح کے تشدد کے 2258 واقعات ہوئے تھے جو 2021 میں کم ہو کر 509 رہ گئے ہیں۔ اسی طرح ماؤنواز تشدد میں عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی 85 فیصد کمی آئی ہے۔ سال 2010 میں یہ تعداد 1005 تھی جو 2021 میں کم ہو کر 147 رہ گئی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ تشدد سے متاثرہ علاقے میں بھی کمی آئی ہے اور تشدد سے متاثرہ اضلاع کی تعداد 2010 میں 96 تھی جو 2021 میں کم ہو کر 46 رہ گئی ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ مودی حکومت کی جانب سے 2015 میں شروع کی گئی نئی قومی پالیسی اور ایکشن پلان کو قرار دیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ملک میں ماؤ نواز نظریہ بین الاقوامی تنظیموں اور نظریے سے متاثر ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اگر اس معاملے پر کوئی قانونی کارروائی کی جاتی ہے تو بین الاقوامی ادارے اس معاملے کو اٹھاتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے بھی آگے آتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( ماؤ) ، ماؤسٹ ایکوسسٹم کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماؤ نواز نظریہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا۔ یہ بندوق کے استعمال سے آمریت چاہتا ہے جبکہ ہندوستان کا نظریہ تعمیری اور انسانی ہے۔ بی جے پی کے راکیش سنہا نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ صحافی اور ماہر تعلیم کے روپ میں کچھ لوگ ملک میں نکسل ازم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں بھی اربن نکسل ازم کی حمایت کر رہی ہیں۔ جس کی اپوزیشن اراکین نے شدید مخالفت کی۔