اسرائیلی پولیس سابق وزیراعظم نیتن یاہو کے بیٹے اور معاونین کی کیوں جاسوسی کرتی رہی؟
تل ابیب،فروری۔اسرائیلی پولیس مبیّنہ طور پرسابق وزیراعظم بنیامین نیتن یاہوکے بیٹے اور ان کے قریبی حلقے کے ارکان کی جاسوسی کرتی رہی ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے ان کے فون پراسپائی ویئر کا استعمال کیا ہے۔اسرائیلی اخبار کیلکلسٹ نے سوموارکو ایک رپورٹ میں سابق وزیراعظم کے بیٹے اور ان کے معاونین کی جاسوسی کا انکشاف کیا ہے۔اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس نے مظاہرین اور دیگراسرائیلی شہریوں کے خلاف جدیدترین اسپائی ویئر کا استعمال کیا۔اس کی اس کارروائی کی سیاسی حلقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔اسرائیلی پولیس پر یہ الزامات نیتن یاہو کے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے کو بھی کمزور کرسکتے ہیں۔یہ بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اسرائیلی پولیس نے سابق وزیراعظم کے خلاف مقدمے میں ایک اہم گواہ کی کڑی نگرانی کے لییاسپائی ویئر کا استعمال کیا تھا۔اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے کہا ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ بہت سنگین ہیں۔اسرائیل کے پبلک سکیورٹی کے وزیرعمربارلیف نے ایک ریٹائرڈ جج کی قیادت میں سرکاری تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہیجو’’زیربحث برسوں میں شہری حقوق اوررازداری کی خلاف ورزی کی گہرائی سے تحقیقات کرے گا‘‘۔انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مبیّنہ خلاف ورزیاں سابقہ حکومتوں میں سابق عہدے داروں کے تحت کی گئی تھیں۔کیلکلسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ پولیس نے سابق وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کے تین مقدمات میں سے ایک میں ان کے بیٹے اونر کے ساتھ ساتھ دومواصلاتی مشیروں اور ایک اورمدعاعلیہ کی اہلیہ کے رجسٹرڈ فونز کو ہیک کرنے کے لییاسپائی ویئرکا استعمال کیا۔اخبارکی رپورٹ کے مطابق وہ سب ان متعدد اہم شخصیات میں شامل ہیں جنھیں اسپائی ویئرکا نشانہ بنایا گیا ہے۔ان میں کاروباری رہنما، کابینہ کی وزارتوں کے سابق ڈائریکٹرز اور میئرز شامل ہیں۔ان کے علاوہ معذورافراد کو بھی نہیں بخشا گیااوراسرائیل میں ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے یہود کی اقلیت کے احتجاجی مظاہروں کے منتظمین کو بھی جاسوسی کی اس مہم میں نشانہ بنایا گیا۔پولیس نے اسرائیلی فرم این ایس اوگروپ کے تیارکردہ طاقتور پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کیا ہے۔اس اسپائی ویئرکومتعدد ممالک میں صحافیوں، کارکنوں اور سیاست دانوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی گروپ کو اب مختلف تنازعات کا سامنا ہے اوراس پرتنقیدکی جاری ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے کسی بھی تفتیش کے آغازسے پہلے اورعدالتی وارنٹ کے بغیرانٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے اسپائی ویئر کا استعمال کیا تھا۔البتہ یہ واضح نہیں ہواکہ نیتن یاہو کے اندرونی حلقے کوان کے خلاف جاری بدعنوانی کے مقدمے کے سلسلے میں نشانہ بنایاگیاتھا یا دیگروجوہات کی بنا پران کی جاسوسی کی گئی تھی۔نیتن یاہو خاندان کے ترجمان نے اس معاملے پرتبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔گذشتہ سال جون میں نیتن یاہو کی جگہ وزیراعظم بننے والے نفتالی بینیٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’پیگاسس اوردیگرمصنوعات’دہشت گردی اورسنگین جرائم‘کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار ہیں لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ انھیں اسرائیلی عوام یا عہدے داروں کو نشانہ بنانے کی جعلی مہمات میں استعمال کیا جائے-یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ واقعی کیا ہوا ہے‘‘۔بینیٹ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پرعوام کے اعتماد میں کمی کے پیش نظریہاں ایک اہم موقع ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیا برقراررکھنے کی ضرورت ہے اورجو چیزدرستی کی متقاضی ہے،اسے درست کیا جائے۔نیتن یاہو کو دھوکادہی، اعتماد کوٹھیس پہنچانے اور رشوت قبول کرنے کے تین الگ الگ الزامات پرمبنی بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا ہے۔ان کی 12 سالہ طویل تاریخی حکومت گذشتہ سال ختم ہوگئی تھی اوردو سال سے بھی کم عرصے میں منعقدہ چارانتخابات کے بعد نفتالی بینیٹ کی قیادت میں ایک مخلوط کابینہ نے حلف اٹھایا تھا۔نیتن یاہوایک طویل عرصے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پرغیر منصفانہ طور پرخودکو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں اوران کے وکلاء نے اب جاسوسی کی اطلاعات پر حکام سے جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔یہاں تک کہ نیتن یاہو کے سیاسی مخالفین نے بھی ان اطلاعات پراپنے سخت غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔یہ توقع کی جارہی ہے کہ آیندہ دنوں میں جس گواہ شلومو فلبرکا فون ہیک کیا گیا تھا، وہ گواہی دے گا اور توقع ہے کہ نیتن یاہو کے وکلاء اس کی گواہی میں تاخیر کی درخواست کریں گے۔کیلکلسٹ نے یہ بھی اطلاع دی کہ پولیس نے اسرائیل کی ٹیلی کام فرم بیزق کے سربراہ (سی ای او) دودومزراحی کی جاسوسی کے لیے بھی اسپائی ویئر کا استعمال کیا تاکہ ایک کیس میں ان کی گواہی کی ساکھ کا جائزہ لیا جا سکے۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ مبیّنہ طورپر جاسوسی کے اس سافٹ ویئر کے ذریعے جمع کیے گئے شواہد میں سے کسی کا نیتن یاہو کے خلاف استعمال کیا گیا تھا یا نہیں۔اسرائیلی پولیس کے کمشنرکوبی شبتائی کا کہنا ہے کہ وہ ایک طرف پولیس پرعوام کا اعتماد بحال کرنے اور دوسری طرف محکمے کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے آزادانہ تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں اور پولیس حکام پہلے ہی اٹارنی جنرل کے دفتر کی تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں۔حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کون سا اسپائی ویئرنامناسب طریقے سے جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔این ایس او گروپ کا سافٹ وئیرپیگاسس آپریٹرزکو کسی ہدف کے موبائل فون میں بلاروک ٹوک گھسنے اورڈیوائس کے مشمولات تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔اس میں حقیقی وقت کی مواصلات بھی شامل ہیں۔دیگراسرائیلی کمپنیوں نے بھی جاسوسی کے طاقتور آلات تیارکررکھیہیں۔این ایس او گروپ اپنے صارف ملکوں یا اداروں کی شناخت کوظاہر نہیں کرتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اسے اس انٹیلی جنس تک رسائی حاصل نہیں ہے،جو وہ (صارف)جمع کرتے ہیں۔وہ اس چیزکو بھی کنٹرول نہیں کرتا ہے کہ اس کی مصنوعات کس طرح استعمال کی جاتی ہیں۔اس کی تمام مصنوعات کی فروخت کی اسرائیل کی وزارت دفاع کی طرف سے منظوری دی جاتی ہے اور اس کی ٹیکنالوجی کو حکومتیں جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔