لندن کے دریائے ٹیمز سے پانچ ہزار سال پرانی انسانی ہڈی دریافت

لندن،فروری ۔ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے دریائے ٹیمز سے نکالی جانے والی ایک انسانی ہڈی وہاں سے ملنے والی قدیم ترین اشیا میں سے ایک ہو سکتی ہے۔سائمن ہنٹ کو ٹانگ کی اوپر کی ہڈی دریا سے اس وقت ملی تھی جب وہاں پانی کی سطح کم تھی۔ کاربن ڈیٹنگ سے پتا چلا ہے کہ یہ 5000 سال سے زیادہ پرانی ہے۔جب سائمن ہنٹ کو ہڈی ملی تو انھیں فوراً اندازہ ہو گیا کہ یہ انسانی ہڈی ہے اور ساتھ ہی انھیں بدترین خوف محسوس ہونے لگا۔سائمن کہتے ہیں کہ ’یہ بہت پرانی لگ رہی تھی لیکن میرے اندر ایک حصہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ اتنی پرانی نہ ہوئی تو؟‘’مجھے نہیں معلوم کہ ہڈی اگر پانی میں دو سال بھی رہے تو وہ کیسی نظر آئے گی، لہذا کیا ہو اگر یہ کچھ زیادہ منحوس چیز ہو؟‘سائمن نے، جو خود ایک گرافک ڈیزائنر ہیں، اسے اس وقت دیکھا جب وہ کشتی چلا رہے تھے۔ انھوں نے پتھروں سے ہڈی اٹھائی، جہاں وہ پڑی تھی اور اسے کشتی میں رکھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس ہڈی کو ایک صاف پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالا اور اسے اپنی بیوی کو دکھانے کے لیے گھر لے گئے۔ سبھی راہگیروں کو وہ صاف نظر آ رہی تھی لیکن کسی نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا۔انھوں نے پولیس کو مطلع کیا جنھوں نے ان سے کہا کہ وہ انھیں وہ جگہ دکھائیں جہاں سے انھیں یہ ہڈی ملی تاکہ وہ تفتیش شروع کر سکیں تاہم جب تک افسران وہاں پہنچے، اس وقت تک لہریں اونچی ہو چکی تھیں اور وہ مقام پانی کے نیچے گہرائی میں چلا گیا تھا۔پولیس افسران نے ہڈی کو لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔ کئی مہینوں بعد پولیس نے سائمن سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ہڈی کو واپس لینے کے لیے پولیس سٹیشن آ جائیں اور ساتھ ایک تھیلا بھی لے کر آئیں۔سائمن نے کہا کہ ’انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ پرانی ہے اور مجھ سے پوچھا کہ اندازہ لگائیں کہ یہ کب کی ہو گی۔‘ یہ درحقیقت کسی ایسے شخص کی ہڈی تھی جو برطانوی نیولیتھک دور کے آخر میں زمین پر رہتا تھا، پتھر کے زمانے کے اختتام پر۔ ماہرین نے اس کی تاریخ 3516 اور 3365 قبل مسیح کے درمیان بتائی ہے۔ایک ماہر آثار قدیمہ نے اس ہڈی کی لمبائی کی پیمائش کر کے بتایا ہے کہ جس شخص کی یہ ہڈی ہے اس کا قد تقریباً پانچ فٹ سات انچ کے قریب ہو گا تاہم یہ نہیں بتایا جا سکا کہ وہ مرد تھا یا عورت۔یہ ہڈی برطانیہ میں موجود آثارِ قدیمہ سٹون ہینج اور مصر کے اہرام سے بھی بہت پرانی ہے۔سائمن کہتے ہیں کہ ’لوگوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں یہ عجیب بات نہیں لگتی کہ مجھے یہ (ہڈی) لندن سے ملی لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت کوئی لندن نہیں تھا۔‘’میرا خیال ہے کہ یہ مٹی یا کسی اور چیز میں پڑی رہی ہو گی کیونکہ یہ بہت اچھی طرح سے محفوظ ہے اور پھر یہ وہاں سے ہلی اور دریا میں میرے پاس پہنچی۔‘نیولیتھک برطانیہ میں کاشتکاری کا فن یہاں پہنچا تھا اور تارکین وطن برِ اعظم یورپ سے یہاں اپنے ساتھ اس کی تکنیک اور اوزار لائے تھے۔ دی میوزیم آف لندن کے پاس قدیم کھوپڑی کا ایک ٹکڑا ہے جو 3645 اور 3600 قبل مسیح کے درمیان نولیتھک دور کا بتایا جاتا ہے۔ سائمن کو امید ہے کہ اس ہڈی کا آخری گھر بھی لندن کا عجائب گھر ہی ہو گا۔میوزیم کا کہنا ہے کہ کھوپڑی دریائے ٹیمز سے حاصل کی گئی قدیم ترین چیزوں میں سے ایک ہے اور ہڈی کو بھی اس کے ساتھ ہی رکھا جائے گا تاہم ابھی تک یہ ہڈی سائمن کے پاس ہے۔سائمن کہتے ہیں ’میں نے واقعی اس بارے میں نہیں سوچا تھا کہ میں اسے کہاں رکھوں گا لیکن اسے ایسی جگہ ہونا چاہیے جو میری بلی کی پہنچ سے دور ہو۔‘’میں اس کا احترام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ایک شخص تھا۔ یہ ہڈی کسی شخص کی ٹانگ کا حصہ تھی، جو 5000 سال سے زیادہ عرصہ پہلے یہاں گھوم رہا تھا۔‘ٹیمز تاریخی نوادرات کا ایک حقیقی خزانہ ثابت ہوا ہے۔ دریا سے قیمتی اشیا تلاش کرنے والے لوگوں نے یہاں سے بہت سی چیزیں ڈھونڈ کر لندن کے عجائب گھر دی ہیں۔لندن میں اس طرح کا کام کرنے کے لیے پورٹ آف لندن اتھارٹی سے لائسنس لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے کنارے یا ساحلی حصے سے کسی بھی قسم کے نوادرات کو تلاش کرنا یا اٹھانا غیر قانونی ہے۔لیکن اس موقع پر تو سائمن اپنا شہری فرض ادا کر رہے تھے اور اس لیے اب تک ان کے ہڈی اٹھانے سے کوئی بھی ناراض نہیں ہوا۔اگر اس کی تکنیکی گتھیوں میں نہ پڑیں یو یہ محض ایک خوش قسمتی نظر آتی ہے جس نے سائمن کی صبح کی کشتی رانی کو مزید دلچسپ بنا دیا۔

 

Related Articles