روس، یوکرین تنازع: روس کا حملہ ’خوفناک‘ ہو گا، امریکی جنرل کی تنبیہ
واشنگٹن،جنوری۔امریکی جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ ’خوفناک‘ ہوگا اور اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔جنرل میلی نے یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی کو سرد جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی تعیناتی قرار دیا ہے۔جنرل میلی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی کے متعلق خوف و ہراس نہ پھیلایا جائے۔لیکن امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی سے بچا جا سکتا ہے۔روس، یوکرین پر حملے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے لیے امریکی حمایت ایک خطرہ ہے۔جمعے کو پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کے سب سے سینیئر فوجی افسر، جنرل میلی نے خبردار کیا کہ یوکرین کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر روسی افواج کی تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ اس حملے کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین نے کہا ’اگر یوکرین پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔‘جنرل میلی نے مزید کہا کہ زیادہ آبادی والے علاقوں میں لڑائی ’خوفناک بلکہ ہولناک‘ ہو گی۔
’تصادم سے بچا جا سکتا ہے‘:امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے مزید ہتھیار فراہم کرنے کے معاملے میں پرعزم ہے۔آسٹن نے روسی صدر پوتن سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تصادم سے بچا جا سکتا ہے اور ابھی بھی سفارتکاری کے لیے وقت موجود ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے جس کے باعث اس صورتحال کو تنازع میں بدلنا پڑے۔۔۔ وہ اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے سکتے ہیں۔‘جمعے کو صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ خطے میں نیٹو کو مضبوط کرنے کے لیے جلد ہی مشرقی یورپ میں کچھ فوجیں بھیجیں گے۔ صدر بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ یہ فوجی کب پہنچیں گے اور کہاں تعینات ہوں گے۔اس ہفتے کے شروع میں پینٹاگون نے کہا تھا کہ 8500 فوجی مختصر نوٹس پر تعینات کیے جانے کے لیے تیار ہیں۔روس نے نیٹو فوجی اتحاد کی توسیع اور اس سے متعلقہ سکیورٹی امور کے بارے میں اپنے خدشات کی ایک تحریری فہرست جاری کی تھی۔ اس فہرست میں یوکرین اور دیگر ممالک کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے امکان کو رد کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔امریکہ نے ماسکو کے اس اہم مطالبے کو رد کر دیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وہ روس کو ’سنجیدہ سفارتی راستہ‘ پیش کر رہے ہیں۔روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب پر روس کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔کریملن کی جانب سے پوتن اور ان کے فرانسیسی ہم منصب کے درمیان ہونے والی فون کال کی پریس ریلیز کے مطابق روسی صدر کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ردِعمل کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔فرانس کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور صدر ایمانویل میکخواں نے صدر پوتن سے کہا ہے کہ روس کو اپنی پڑوسی ریاستوں کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے۔
’خوف و ہراس نہ پھیلائیں‘:پینٹاگون کی جانب سے یہ انتباہ، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی صحافیوں سے کی گئی اس بات چیت کے بعد دیا گیا ہے جس میں انھوں نے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی کے متعلق خوف و ہراس نہ پھیلانے کا کہا تھا۔کیو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں زیلینسکی نے کہا کہ گذشتہ موسم بہار میں بھی اتنی ہی تعداد میں فوجی تعینات کیے گئے تھے لہذا اب انھیں کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا۔ان کا کہنا تھا ’حتیٰ کہ کئی اہم ملکوں کے معزز رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں۔۔۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ کل جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ خوف ہراس پھیلانا ہے۔۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے ہماری ریاست کو اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟‘انھوں نے کہا کہ یوکرین کے لیے سب سے بڑا خطرہ ’ملک کے اندر عدم استحکام‘ ہے۔
’یوکرین ٹائی ٹینِک نہیں‘
سارہ رینس فورڈ، نامہ نگارمشرقی یورپ:ایک کے بعد ایک صحافیوں نے یوکرین کے صدر سے دھمکی سے متعلق سوال کیے۔ لیکن ولادیمیر زیلینسکی نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ انھوں نے میڈیا پر خوف و ہراس پھیلانے کا الزام لگایا۔دوسری جانب انھوں نے امریکی انٹیلی جنس کے پاس معلومات سے انکار بھی نہیں کیا۔ آخر کار انھوں نے کہا ’میں ایک لاکھ فوجی دیکھ سکتا ہوں۔‘لیکن انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یوکرین کسی بھی قسم کی جنگ کے لیے تیاری کر رہا ہے۔زیلینسکی نے صحافیوں کو یاد دلایا کہ ان کا ملک برسوں سے روسی جارحیت کے خطرے کے ساتھ جی رہا ہے۔۔۔ اس میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے اور بڑے پیمانے پر فوجیوں کی حالیہ تعیناتی کے باوجود، وہ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے پْرعزم نظر آئے۔جب ان سے کچھ سفارتخانوں کے عملے کو بحفاظت یوکرین سے نکالنے سے متعلق سوال کیا گیا تو وہ شدید غصے میں آگئے اور کہا: ’سفارتکار کپتان کی طرح ہوتا ہے، انھیں ڈوبتے جہاز کو چھوڑنے والا آخری شخص ہونا چاہیے اور یوکرین ٹائی ٹینِک نہیں ہے۔‘روس نے گذشتہ ماہ مغرب سے سکیورٹی کے جو مطالبات کیے تھے، ان کے مطابق:
یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکا جائے
نیٹو کو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ختم کرنا ہوں گی، پولینڈ اور ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا کی بالٹک جمہوریہ سے فوجیوں کو نکالنا ہو گا
اتحادی ممالک، روس کے قریب یا سرحد سے ملحقہ ممالک میں میزائل تعینات نہیں کریں گے
امریکہ اور نیٹو نے جواب میں کہا ہے کہ یوکرین کو اپنے اتحادیوں کا انتخاب کرنے کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے روس کو میزائل تنصیبات اور دیگر مسائل پر بات چیت کی پیشکش کی ہے۔
اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا تو یہ پہلی بار نہیں ہو گا۔روس نے 2014 میں یوکرین کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر کے اپنے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔ وہ ان علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی بھی کر رہا ہے جنھوں نے اس کے فوراً بعد مشرقی دونباس علاقے کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا، اور وہاں لڑائی میں تقریباً 14000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔