اسلام اورسیکولرازم

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
مغربی سیکولرازم اوراسلامی سیکولرازم میں واضح فرق ہے ۔مغربی سیکولرازم میں مذہب کی نفی کی گئی ہے۔وہاںمذہب ایک روائتی عمل ہے جس کو آپ کریں یانہ کریں۔ ریاست کا اپناکوئی مذہب نہیں ہوگا۔سبھی کو اپنے مذہب پر چلنے اوراس کی تشہیر کی آزادی توہوگی لیکن اس میں ریاست کاکوئی دخل نہیں ہوگا۔ اس بات کو یورپین اورامریکی بہت فخر سے بتاتے ہیں کیونکہ آئین میں اقلیتوں کے حقوق کا التزام توہوتاہے لیکن اگر عدلیہ عملی طور پر خود مختار نہیں ہوتی ہے اوراکثریت کے دلوں میں اقلیتوں کیلئے نفرت کاجذبہ ہوتاہے توجیسا کہ ہم اپنے ملک میں دیکھ رہے ہیں اقلیتوںکوطرح طرح کے مظالم کاسامنا کرناپڑتاہے اور انہیں انصاف نہیں مل پاتاہے۔ دوسری جانب ہم اگرتاریخ کاجائزہ لیں اورمدینہ کی ریاست اورخلفائے راشدین کے دورِ حکومت میں ان کے طریقۂ کار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ غیرمسلموں کے ساتھ ان حکومتوں میں کبھی ناانصافی یازیادتی نہیں ہوئی ہے۔
مدینہ کی ریاست میں حضورؐ نے یہودی اورعیسائیوں کے ساتھ جتنے بھی معاہدے کئے سبھی انصاف پر مبنی تھے اورسبھی میں ان کے حقوق کا پورا خیال رکھاگیاتھا۔ جنگ بندہونے کے بعد بھی ان کا قتل نہیںکیاگیا۔اسلحہ کا استعمال نہیں کیاگیا ،جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیاگیا اوران کی خواتین ،بزرگوں اوربچوں کے ساتھ نرمی اوررحم کا مظاہرہ کیاگیا ۔ قرآن اورحدیث میں تمام ایسی تحریریں موجودہیں جو کسی انسان کے خلاف ظلم وزیادتی کو منع کرتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیؐ کو رحمت للعالمین بناکر بھیجا اور وہ صرف مسلمانوں کے نبی نہیں تھے بلکہ پورے عالم انسایت ،تمام مخلوقات ،چرندپرند اور اجناوغیرہ کے نبی تھے ۔سبھی کو ان سے فیض پہنچ رہاہے ۔ایک مومن یاسچا مسلمان کسی جاندار ،انسان (مسلم یاغیرمسلم)چرندپرند کو بناکسی عذر کے نقصان نہیں پہنچاسکتاہے کیونکہ اس کے دل میں خدا اوررسول کاخوف ہوتاہے۔ اگروہ کسی کے ساتھ نا انصافی یازیادتی کرتاہو تو اسے دنیا وآخرت دونوں جگہ ذلت ورسوائی اور سزا کاسامناکرنا پڑے گا۔ انسان کو دنیاوی قانون سے زیادہ مذہب کاخوف ہوتاہے۔
بدقسمتی آزادی ملنے کے وقت مذہب کی بنیاد پر ہمارا ملک تقسیم ہوگیا ۔انگریزوںنے ہندوومسلمان کے بیچ نفرت کی بہت گہری کھائی کھودی تھی۔ محمدعلی جناح کانظریہ تھا کہ آزادہندوستان میں مسلمانوںکے حقوق محفوظ نہیں رہیںگے ۔دوسری طرف جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل جنہوں نے ملک کی آزادی حاصل کرنے میںنمایاں کردار ادا کیاتھا،کو خدشہ تھا کہیں وزیراعظم کاعہدہ مسلمانوں کے پاس نہ چلا جائے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ جواہر لعل نہرو اورمحمدعلی جناح دونوں ہی سیکولرذہن کے مالک تھے،دونوں مغربی تعلیم سے آراستہ تھے اوردونوں ہی ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔مسلم لیگ کی تشکیل کے بعد بھی جناح نے کانگریس سے ناطہ نہیںتوڑا تھا ۔مسلم لیگ اور کانگریس دونوں ہی طرف کے اراکین یہ سمجھ رہے تھے کہ ملک کی تقسیم کے بعد خون خرابا بندہوجائے گااوردونوں ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے لیکن ہو ااِس کے برعکس ۔ تقسیم کے وقت جب دونوں طرف کے مہاجرین کاتبادلہ ہوا تو جس پیمانے پر خون خرابے کا منظرسامنے آیاوہ تاریخ کا بہت ہی شرمناک پہلو ہے۔ اگراس کاعلم دونوں طرف کے رہنماؤں کو پہلے سے ہوتاتو شاید ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا اور متحدہ ہندوستان آج دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتی۔ہندوؤں کے ساتھ ساتھ اس برصغیر کا مسلمان بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوتا۔
پاکستان کے قیام کے بعد محمدعلی جناح نے جس نظریہ کی ترجمانی کی اس کا جائزہ لینابھی ضروری ہے۔فروری 1948ء میں انہوںنے امریکی عوام کیلئے ایک ریڈیوپیغام جاری کیاتھا جس میں انہوں نے ریاست سے متعلق مختلف امور پر اپنا نقطۂ نظربیان کیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہوگا اوراسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔ اسلام نے ہمیں وحدت ،مساوات اورانصاف کادرس دیاہے۔ پاکستان کسی صورت میں بھی ایک قدیمی ریاست نہیں ہوگا، ان معنوں میں کہ اس پر کوئی مذہبی طبقہ الٰہی مشن کے ساتھ حکمرانی کرے۔یہاں وہ شہری بھی بستے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں ،جیسے ہندو، عیسائی اورپارسی،انہیں وہی حقوق حاصل رہیں گے جو دوسرے شہریوں کو میسر ہیں اوروہ پاکستان کی ترقی میں اپناکردار اداکریں گے (روزنامہ دنیا 4جنوری 2022)اُن کے اس بیان سے ظاہرہوتاہے کہ جناح مذہبی انسان نہیں تھے ۔وہ سیکولرتھے اوروہ پاکستان کو بھی سیکولر بناناچاہتے تھے ۔اپنی 11؍اگست 1948ء کی تقریر میں انہوں نے کہاتھا ’’پاکستان بن گیاہے اوراب مسلمان اپنی مساجد ،ہندو اپنے مندروں اورعیسائی اپنے گرجوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔‘‘یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی تمہید (Preamble)میں اقلیتوں کے حقوق کا ذکر ہے جبکہ ہمارے اپنے ملک کے آئین کی تمہید میں 1976ء میں سیکولر اورسوشلسٹ الفاظ توجوڑے گئے ہیں لیکن اس میں براہ راست اقلیتوں کے حقوق کی بات نہیں کی گئی ہے ۔ہمارے آئین کے چیپٹر3میں اقلیتوں کے حقوق کا التزام ہے ۔مرکز میں جب سے اکثریت کے ساتھ بی-جے-پی حکومت برسراقتدار ہوئی ہے تب سے کسی نہ کسی بہانے مختلف قوانین پاس کرکے اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ این-آر-سی،سی -اے-اے،دفعہ370کی منسوخی اورتین طلاق ترمیمی ایکٹ وغیرہ ۔یہ جماعت آر-ایس-ایس کے نظریے کے مطابق ہندوستان کو ایک ہندو راشٹربنانے کی کوشش میں ہے۔ اگرہندو راشٹرمیں دوسرے مذہب کے لوگوں کو برابر کے حقوق دئے جائیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگالیکن ہندو راشٹر کے تصور میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی بات کہی جاتی ہے ۔ اگراسلامی ریاست کی طرز پر ہندوراشٹر کی تشکیل ہو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اسلامی ریاست کا مطلب احکامات خداوندی یادوسرے الفاظ میں قرآن وسنت کی بالادستی ہے، کسی مذہبی طبقہ کی بالادستی نہیں ہے ۔قرآن وحدیث کے احکامات وہدایات مساوات،انصاف اور خوش سلوکی کی تعلیم سے لبریز ہے، کسی مذہبی ،لسانی ،علاقائی یارنگ ونسل کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق کی اسلام میں اجازت نہیں ہے ۔اس طرح اسلامی حکومت میں سیکولرزم کی روح موجود ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ دنیا کے قریب 57مسلم ممالک میں کون سے ملک ہیں جہاں اسلامی حکومت پائی جاتی ہے ؟درحقیقت کوئی نہیں ۔ ہرملک میں ایک مخصوص طبقہ کی بالادستی ہے۔ پاکستان میں جاگیرداروں اور فوج کی متحدہ بالادستی ہے ۔ ایران میں شیعہ علمائے دین کی بالادستی ہے، سعودی عرب میں ایک شاہی خاندان کی بالادستی ہے جو عملی طور پر مغربی ممالک کے ماتحت حکومت چلارہی ہے۔افغانستان میں طالبان کی بالادستی ہے ۔زیادہ ترگلف ریاستیں امریکہ اوردوسرے مغربی ممالک کے زیراثر اپنی حکومت چلانے پر مجبورہیں۔کچھ ممالک خود مختار بننے کی کوشش ضرور کررہے ہیں اورجن میں حق بات کہنے کی جرأت ہے۔ وہ ہیں ایران، ترکی اورافغانستان ۔یہ ممالک امریکہ کی بالادستی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اوراس فہرست میں بھی اوّل درجہ پر اگرکوئی ملک آتاہے تووہ ایران ہے۔ اتناسب کچھ تحریر کرنے کے بعد بھی ابھی اس سوال کا جواب سامنے نہیں آیا کہ آج کی تاریخ میں حقیقت میں اسلامی ملک کو ن ساہے؟ میری نظرمیں جس ملک کے عوام اوران کی حکومت سب سے زیادہ اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں وہ ہے جاپان۔ وہ لوگ کلمہ گوتو نہیں لیں لیکن ان کا کردار ،عمل،محنت وجانفشانی ،ایمانداری،مستقل مزاجی، سچائی اورانصاف پسندی کی صفات بالکل ایک مومن کی مانند ہے۔ ان کے نقش قدم پر چل کر ہرمسلم ملک جاپان بن سکتاہے اوردنیا کی تمام دوسری قوموں کیلئے مشعلِ راہ بن سکتاہے۔

 

 

Related Articles