امریکی جمہوریت کو بڑے خطرات لاحق ہوچکے، بائیڈن، ملک میں خانہ جنگی کے خدشات

نیویارک،جنوری۔ امریکا میں صدر جو بائیڈن ایک سال تک پر امید رہے کہ ملک کے حالات معمول پر آ جائیں گے اور جمہوریت کو ہونے والا نقصان دوبارہ بحالی کی طرف گامزن ہو جائے گا لیکن کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے کی برسی کے موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکی جمہوریت کو بڑے پیمانے پر خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں آج فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس طرح کی قوم بننا چاہتے ہیں، کیا ہم ایسی قوم بننا چاہیں گے جو سیاسی تشدد کو ایک روایت بنانا چاہے گی؟‘‘ یہی سوال اب ہر امریکی شہری کے ذہن میں گونج رہا ہوگا۔ امریکی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اب زیادہ منقسم معاشرہ بن چکا ہے جسے جنوری 2020ء کو کیپیٹل ہل پر حملے نے مزید منقسم بنا دیا۔ خدشہ ہے کہ یہ واقعہ ملک میں وسیع پیمانے پر بے چینی، تنازع اور داخلی سطح پر دہشت گردی کو جنم دے گا۔ اخبارات میں ان شہ سرخیوں کے ساتھ آرٹیکلز شائع ہو رہے ہیں کہ ’’کیا خانہ جنگی ہونے والی ہے؟‘‘ جبکہ نیویارکر اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات کے اداریوں میں بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ تین ریٹائرڈ فوجی جرنیل بھی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مستقبل میں کبھی دوبارہ حکومت پر قبضے کی کوشش ہوئی تو ملک میں خانہ جنگی پھیل سکتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ہفتے کیپیٹل ہل پر حملے کی برسی میں ری پبلکن پارٹی کے کسی رکن نے شرکت نہیں کی جبکہ معروف ٹی وی چینل فاکس نیوز کے سخت نظریات کے حامل لیکن مقبول ٹی وی میزبان ٹکر کارلسن کے پروگرام میں جو بائیڈن کی تقریر دکھانے سے انکار کر دیا گیا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’اْس دن زیادہ کچھ نہیں ہوا تھا۔‘‘ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، ری پبلکن پارٹی پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے رویوں کی چھاپ مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور یہ آہستہ آہستہ مطلق العنان رویہ اختیار کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خطرات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ملک میں شمالی آئرلینڈ طرز کی مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو میں ماہر علوم سیاسیات باربرا والٹر نے حالات کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ 2020ء کے الیکشن میں دیکھیں تو ری پبلکن پارٹی میں 90 فیصد سفید فام افراد ہیں، یہ ایک گروہ بن چکا ہے اور اب یہ خطرناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی آئرلینڈ طرز کی مزاحمت کا خطرہ موجود ہے اور یہ پورے ملک میں پھیل سکتی ہے کیونکہ امریکا کا رقبہ بہت زیادہ اور ساتھ میں ملیشیا گروپس کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات قابو سے نکل گئے تو یہ ملیشیا غیر روایتی چال چلتے ہوئے دہشت گردی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں جس میں گوریلا جنگ کے امکانات بھی ہیں جو وفاقی عمارتوں، یہودی عبادت گاہوں اور پرہجوم علاقوں پر حملے کر سکتے ہیں۔ حکمت عملی یہ ہوگی کہ امریکی عوام کو خوف زدہ کرکے انہیں یہ بات ماننے پر آمادہ کرلیا جائے کہ وفاقی حکومت اْن کا خیال رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ والٹر کہتی ہیں کہ اگر غور کیا جائے تو 2020ء میں مشی گن ریاست کی ڈیموکریٹ گورنر گریچن وٹمر کو اغوا کرنے کا ناکام منصوبہ سامنے آیا تھا تاہم ایسے واقعات آئندہ پیش آ سکتے ہیں۔ والٹر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسی صورتحال میں مخالفین، معتدل ری پبلکن ارکان اور ایسے ججز پر قاتلانہ حملے ہو سکتے ہیں جنہیں غیر جمہوری قوتوں یا اْن کی رائے کے مخالف سمجھے جاتا ہوگا۔ والٹر نے کہا کہ عمومی طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خانہ جنگی غریب یا محرومیوں کا شکار طبقہ شروع کرتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ امریکا میں معاملے میں دیکھیں تو 2045ء تک سفید فام افراد اقلیت میں تبدیل ہونے کا امکان ہے اور حالات کی خرابی کی وجہ انہی سفید فام افراد کی اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہونے پر جھنجھلاہٹ ہے، یہ لوگ سیاسی قوت کھو چکے ہیں یا پھر کھونے کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور ساتھ ہی یہ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ملک اْن کا ہے اسلئے طاقت کا استعمال اْن کا حق ہے کیونکہ سسٹم اب ان کیلئے کام نہیں کرتا۔

Related Articles