قزاقستان سے روسی فوجیوں کی واپسی شروع
نور سلطاط،جنوری۔قزاقستان میں متعین روسی فوجیوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے۔ ان روسی فوجیوں کو قازق حکومت کے مخالف مظاہروں کے دوران تعینات کیا گیا تھا۔ ان مظاہروں میں بے شمار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔روسی وزارت دفاع نے وسطی ایشیائی ریاست قزاقستان میں متعین روسی افواج کے انخلا کی تصدیق کی ہے۔ شدید مظاہروں کے تناظر میں علاقائی عسکری اتحاد کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (CSTO) کی جانب سے روسی اور دیگر رکن ممالک کی افواج کی تعیناتی کی گئی تھی۔ روس کے قریب دو ہزار فوجی قزاقستان روانہ کیے گئے تھے۔اس عسکری اتحاد کی قیادت روس کے ہاتھ میں ہے۔ سن 1992 میں اس فوجی اتحاد کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ امن دستوں کو کسی رکن ملک میں تعینات کیا گیا ہے۔ اس اتحاد کے رکن ملکوں کی تعداد چھ ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کا بیان:ماسکو سے روسی وزارت دفاع کے بیان میں واضح کیا گیا کہ قزاقستان میں اہم تنصیبات کی نگرانی کے لیے روسی اور امن فوجی دستوں کو روانہ کیا گیا تھا۔ بیان کے مطابق اب جب کہ مجموعی صورت حال بہتر ہو گئی ہے، اس لیے امن دستوں کے انخلا کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ریجنل عسکری اتحاد کولیکٹو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن سے امن فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست قزاقستان کے صدر قاسم جومارات توکائیف نے کی تھی۔ ماسکو سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ امن دستوں کے قزاقستان سے انخلا میں دس دن درکار ہوں گے۔اس مناسب فوجی مشن کے اختتام کی ایک باضابطہ تقریب بھی منعقد کی گئی۔ عسکری اتحاد کے امن دستوں میں روس کے علاوہ بیلا روس، آرمینیا، تاجکستان اور کرغیزستان کے فوجی بھی شامل تھے۔ فوجی مشن کے اختتام کا اعلان فوجی اتحاد کے روسی کمانڈر جنرل اندری سردیئکوف نے ایک تقریب میں کیا۔
نفسیاتی اہمیت:قزاقستان کے صدر قاسم جومارات توکائیف نے امن دستے کی تعیناتی کو ‘نفسیاتی‘ اعتبار سے اپنے ملک میں امن و استحکام کے قیام کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔ یہ امر اہم ہے کہ رواں ماہ کے دوران قزاقستان کے مالیاتی مرکز الماتی میں ہزاروں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک تھے اور اس نے اس وسطی ایشیائی ریاست میں کسی حد تک عدم استحکام کی صورت حال پیدا کر دی تھی۔حکومتی اندازوں کے مطابق ان مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ سے ملکی خزانے کو دو سے تین بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ان مظاہروں کے دوران ایک ہزار دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتار شدگان میں کئی اہم حکومتی اہلکار بھی شامل ہیں۔ گرفتار کیے جانے والوں میں کم از کم تین صحافی بھی ہیں۔قزاقستان میں مظاہروں اور روسی اثر و رسوخ کے حوالے سے امریکی تشویش بھی سامنے آ چکی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قازق حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ وہ روسی فوجیوں کی اپنے ملک میں تعیناتی سے گریز کرے۔