ایک دوسرے کی اصلاح ضروری
ریاض فردوسی
ادب اور آداب میں امت مرحومہ کی صاف گوئی اور بے باکی تباہ ہوگئی۔آج ہر شخص زبانی ریا کاری میں محو ہو کردینی حقیقت سے کوسوں دور ہو چکا ہے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مومن مومن کاآئینہ ہے ۔یہ حدیث بڑی ہی مختصر مگربہت ہی جامع ہے،اَللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیث میں ایک مؤمن کو دوسرے مؤمن کے لیے آئینہ کے مانند قرار دیاہے۔ایک شخص جب آئینے کے سامنے کھڑاہوتاہے اوراپنے چہرے پرکوئی گندگی دیکھتا ہے، تووہ قطعاََگوارانہیں کرتاکہ وہ اپنے چہرے پرپلیدگی باقی رکھے بلکہ وہ اُسے فوراً زائل کرتا ہے۔ ایک مومن کوبھی چاہیے کہ جب وہ کسی مؤمن کے اندرکوئی کمی دیکھے تواسے اپنا آئینہ سمجھتے ہوئے اس کی کمی کواپنی کمی سمجھے اوراسے زائل کرنے کی فوراًکوشش کرے۔آئینہ کے سامنے ایک فقیر کھڑاہویابادشاہِ وقت،وہ کسی سے نہیں ڈرتا اور بے خوف وخطر حقیقت کااِظہارکرتاہے،ایک مؤمن کوبھی دوسرے مؤمن کے تئیں اسی آئینہ کی طرح بے باک ہوناچاہیے اورکسی شخصیت سے مرعوب ہوکراسے منکرکی آزادی نہیں دینی چاہیے۔آئینہ مُنہ کی بات منہ پر کہتاہے دِل میں کچھ نہیں رکھتا،ایک مؤمن کوبھی چاہیے کہ کسی مؤمن کوتنبیہ کرنے کے بعد دل میں اس کے خلاف کچھ نہ رکھے۔آئینہ آپ کی بات آپ ہی کوبتاتاہے پیٹھ پیچھے کسی اورسے نہیں کہتا،ایک مؤمن کوبھی چاہیے کہ اپنے بھائی کی برائی اسی کے سامنے پیش کرے،پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرے۔آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا،ایک مؤمن کوبھی ایک مؤمن کے تعلق سے متعلق ہمیشہ سچی بات ہی کہنی چاہیے۔آئینہ اچھائیاں اور برائیاں دونوں بیان کرتاہے کسی ایک ہی پراِکتفانہیں کرتا، ایک مؤمن کوبھی چاہیے کہ جب وہ کسی شخصیت وغیرہ پرتبصرہ کرے تو دونوں پہلوسامنے رکھ دے۔آئینہ ہرچیز کواس کی اصل مقداروکیفیت میں پیش کرتاہے ،مبالغہ یاتنقیص نہیں کرتا،مثلاًہم آئینہ کے سامنے ہیں ہمارے چہرے پر تین داغ ہیں توآئینہ صرف تین داغ ہی بتائے گا،کمی یازیادتی نہیں کرے گا،ایک مؤمن کوبھی چاہیے کہ وہ ایک مؤمن کے تعلق سے کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی یاتنقیص سے کام نہ لے،اورسب سے بڑھ کر،قرآن ایک آئینہ ہے جس کوہم سب نے غلاف میں ڈال دیا ہے۔آداب اور القابات نے مسلم معاشرے کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے !رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔دعائے مغفرت لوگوں کے مرنے پہ نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ کرنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔آج دینی معاملے میں اکابرین کی اتباع چھوڑ کر ہم آخرین کی اتباع کرتے ہیں،مثلاََاگر کوئی دینی معاملہ ہوتا ہے تو ہم سب سے قبل بزرگوان دین کی اتباع کرتے ہیں ،پھر تبع تابعی ،پھر صحابہ ؓ کی ذات گرامی اور سب سے آخر میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سنت پر عمل کرتے ہیں،ہونا یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے احادیث نبی ؐ پر، پھر سنت نبیؐ، پھر صحابہ ؓ کی اتباع ،پھر تابعی ،تبع تابعی اور سب سے آخر میں بزرگوان دین کی اتباع ،دینی معاملے میںاور سائنسی معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی اتباع اور اکابرین کی اتباع،دو متضاد باتیں ہیں؟صرف شریعت اسلامیہ کے قوانین الٰہیہ میں تحقیق نہیں کی جا سکتی۔حرام جس کو حضورؐ نے اللہ کے حکم سے حرام قرار دیا، وہ ہمیشہ حرام ہی رہے گا۔جو کتاب ِاللہ میں حلال ہے وہ ہمیشہ حلال ہی رہے گا ۔لیکن بہت سی قرآنی آیات ،سائنسی بھی ہے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ا دوار کی تحقیق کو مشعل راہ بنا کر مزید دورِ حاضر کی نئی نئی تکنیک کو سامنے رکھ کر تحقیق کی ضرورت ہے۔اس سے ہم دور ہو چکے ہیں،کیوں کہ ہم کتاب اللہ کو صرف آخرت کی کتاب مانتے ہیں۔علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، اور انسان کو علم کے کسی بھی درجے پر قناعت کر کے نہیں بیٹھنا چاہئے، بلکہ ہر وقت علم میں ترقی کی کوشش اور دعا کرتے رہنا چاہئے، اس دُعا میں یاد داشت کی قوت کی دُعا بھی شامل ہے اور معلومات کی زیادتی اور ان کی صحیح سمجھ کی بھی۔ ایک واضح ہے کہ رب زدنی علماََ سے قبل قرآ ن کریم کا ذکر ہے،یعنی اگر علم حاصل کرنا ہے تو صرف اللہ کی کتاب سے ہی حاصل ہوگا۔ 400 سالوں سے کوئی تحقیق نہیں ہوئی ،قرآن کریم کو آخرت کی کتاب کا نام دے کر صرف قرآن خوانی اور تعویذات کا کا م لیا گیا،قرأت کو فروغ دیا گیا،قاریوں پر انعام و اکرام کی بارش کی گئی۔جو جتناگا گا کر قرآن پڑھ سکتا ہے،اس کی قرأت کو اتنا ہی پسند کیا گیا۔لیکن کتاب اللہ کے قوانین کی بات کبھی نہیں کی گئی۔ یہودیوں کا اصول ہے کہ مسلمانوں کو ہر عبادت کی سہولت دو، لیکن اگر کوئی شخص یا تنظیم قانون شریعت کی بات کرے ،اللہ کے قانون کو نافذکرنے کی کوشش کرے تو اس کو فوراً مارڈالا جائے ،تنظیم کو نیست نابود کر دیا جائے۔آج ہم داعی حق کا فریضہ انجام تو دیتے ہیں لیکن اس کے اصول سے نا واقف ہیں۔داعی حق کو نرم خو اور اعلیٰ ظرف ہونا چاہیے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی، اخلاق حسنہ سے اور درگزر کرنے کی ادا سے لوگ بہت زیادہ متاثر تھے۔اسلام کے پھیلاؤ میں آپ ؐکی اس خصوصیت کا بہت دخل ہے۔قرآن کریم کی تفسیر کے مطابق نرم خوئی، خوش اخلاقی، عفو ودرگزراورلطف ومہربانی والی صفات اگرآپﷺ کے اندرنہ ہوتیں تو اصلاح ِ خلق کا جو کام آپ ؐکے سپرد ہے، وہ حسب ِ منشا انجام نہ پاتا،لوگ آپ ؐکے ذریعہ اپنی اصلاح اورتزکیۂ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ ؐسے بھاگ جاتے،جو شخص رشد وہدایت اوردعوت اِلی اللہ اوراصلاح ِخلق کا ارادہ کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اند ر پیدا کرے،کیوں کہ جب اللہ تعالی کے محبوب رسول ؐ کی سختی برادشت نہیں ہوسکتی تو پھرکس کی مجال ہے کہ وہ تشدد وکج خلقی کے ساتھ خلق اللہ کو اپنے ارد گرد جمع کرے اوران کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے۔بزرگان دین نے یوں تو آپ ؐ کی تقریباََتمام سنتوں کی اتباع کی،لیکن اخلاق حسنہ کی اتباع سب سے بڑھ کر کی۔ حق تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگرآپ صلی اللہ علیہ والی وسلم تند خو، سخت طبیعت ہوتے، تو لوگ آپ ؐ کے پاس سے منتشرہوجاتے، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد ومبلغ کے لیے تند خوئی، سخت کلامی زہر ہے اوراس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے(معارف القرآن 3/217)دنیا میں ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو،کامیابی و کامرانی کا سہرا اس کے سر آئے،لیکن کیا دنیا کی کامیابی ہی ہماری منزل ہے؟ہمارے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ضروری ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا،سن لو! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے جب وہ ٹھیک ہوا تو پورا جسم ٹھیک ہوگیا اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا ،سن لو! وہ گوشت کا لوتھڑا دِل ہے(متفق علیہ)مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ کسی شخص کا ایمان درست اور صحیح و سالم نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل اور دل کا قبلہ درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہوسکتا ،جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے دل کو تین مواقع پر تلاش کیا کرو۔قرآن کریم سننے کے وقت، ذکر کی مجلس میںاورتنہائی کے اوقات میں۔اگر تم ان مواقع پر اپنے دل کو حاضر نہ پاو، تو اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں ایک دِل عطا کرکے احسان کرے(ابن کثیر)اس دل کی حیثیت یہ ہے کہ یہ پورے جسم و جاں کا حکمراں ہے، اس کی حیثیت اور مرتبہ بادشاہ کی ہے، وہ ظاہر و باطن سب پر اثر انداز ہوتا ہے،کوئی شخص کسی کام کے لئے آپ کو کتنا امادہ کرے اور اُکسائے مگر آپ کا دِل آمادہ نہ ہو، اس کی طرف راغب نہ ہو، تو وہ کام انجام نہیں پاسکتا اور دل مطمئن ہوجائے تو ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ اعضاء و جوارح سب اس کی آمادگی کے ساتھ ہی حرکت کرنے لگتے ہیں۔آنکھ سے دیکھنا بصارت ہے جب کہ دل سے دیکھنا بصیرت ہے۔بصیرت نہ ہو تو بصارت کا کوئی فایدہ نہیں ،آدمی دل کی نگاہ سے نہ دیکھے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھا ہوجائے گا۔آنکھیں اندھی نہیں ہوتی سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔