تین اسلامی مفکرین
ایم سرور صدیقی
اسلامی مفکرین میں 3شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے لکھا خوب لکھا اتنا لکھاکہ لوگ آج تک حیران ہیں ان میں شیخ اکبر حضرت محی ؒالدین ابن عربی ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضاؒ خان بریلوی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا نام سرفہرست ہے اتفاق کی بات یہ ہے کہ تینوں مفکرین کا تعلق سنی مکتبہ ٔ فکر سے ہے تینوں نے اسلامی تہذیب و تمدن بڑے گہرے نقوش مرتب کئے۔شیخ اکبر حضرت محی ؒالدین ابن عربی ایک منفرد مصنف،سیاح اور ممتاز روحانی شخصیت تھے انہوں نے 75 برس کی عمر کے دوران 46 برس میں 800 سے زیادہ ضخیم کتابیں تصنیف کیں، آپ کی صرف ایک کتاب فتوحاتِ مکیہ کے صفحات کی تعداد تقریباً 15 ہزار تھی ، اس دوران آپ نے اندلس سے شمالی افریقہ ، مصر، عرب، شام، عراق ، یروشلم ، ترکی تک سفر بھی کئے جس سے بخوبی ندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ایک دن میں سو سے زائد صفحات لکھتے ہوں گے۔علیٰ حضرت امام احمدرضاؒ خان بریلوی نے 1000سے زائدکتابیں تحریرکیں جس میں فتاویٰ رضویہ (مختلف امور پر اسلامی فیصلے) کتاب ہے یہ 30 جلدوں میں 22000 صفحات پرمشتمل اس میں مذہب سے لے کر کاروبار اور جنگ سے لیکر شادی تک روزانہ کے مسائل شامل ہیں اسے عالم ِ اسلام میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی اس کی اہمیت مسلمہ سمجھی جاتی ہے جبکہ ڈاکٹرطاہرالقادری کی تحریرکتابوںکی تعداد بھی کم وبیش700کے قریب ہے جس میں کئی ضخیم حصوں پر مشتمل ہزاروں صفحات پر محیط قرآن انسائیکلوپیڈیا اور دہشت گردی کے خلاف اسلام کی امن نصاب شامل ہے۔ شیخ اکبر حضرت محی ؒالدین ابن عربی ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضاؒ خان بریلوی اور ڈاکٹر طاہرالقادری تینوں نے مختلف علوم اسلامی الہیات ، حدیث ، تفسیر ، فقہ،ریاضی ، اردو شاعری ، تصوف ، سائنس ، فلسفہ ، علمیاتیات ، فلکیات پر ناقابل فراموش کتب تحریر کرکے ایک انقلاب بپا کردیا ابن عربی کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ہے۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت اور عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق ہیں۔ عالم اسلام کے چند اہم دانشوران، مفکرین فلسفیوں اور صوفیاء میں سے ایک شیخ ِاکبر ابن عربی ہیں۔ تقریباً 800 کتابوں کے مصنف ابن عربی کو صوفیاء نے ‘‘شیخ الاکبر ’’ کا لقب دے رکھا ہے اور آج تک یہ لقب کسی اور کو نہیں مل سکا ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا کیونکہ آپ سے ایک صدی قبل ابن العربی کے نام سے ایک علمی شخصیت امام غزالی کے شاگرد قاضی ابو بکر ابن العربی اشبلیہ ہسپانیہ میں مشہور رہے ہیں۔ دونوں شخصیات میں تمیز کرنے کی خاطر انہیں ابن العربی اور آپ کو ابنِ عربی لکھا جاتا ہے۔ آپ کو ابن العربی صرف آپ کے لقب محی الدین کے ساتھ ہی لکھا۔ ابن عربی کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد ابن عربی الاندلسی الحاتمی الطائی ہے۔ آپ حاتم طائی کی نسل سے تھے جو اپنی سخاوت کے باعث نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا میں آج تک مشہور و معروف ہیں۔ بنی طے ایک قبیلہ تھا، حاتم اس قبیلے کا ایک سردار تھا جس کے دروازے سے کوئی سائل خالی نہیں جاتا تھا۔ ویسے بھی عربوں میں مہمان نوازی بہت مشہور ہے۔ ان روایات کو عرب جہاں بھی گئے اپنے ساتھ لے گئے۔ حاتم طائی کی اولاد میں سے ایک صوفی منش گھرانے نے اندلس میں آکر رہائش اختیار کر لی تھی۔ ابن عربی کے دادا محمد اندلس کے قاضی اور ممتاز علما ء میں سے تھے۔ ابن عربی کے والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں میں سے تھے۔ والدہ انصار سے تعلق رکھتی تھیں ، ابن عربی کے ماموں شیخ یحییٰ بن یغان اور ابو مسلم الخولانی دمشق کے ایک مشہور ولی اللہ تھے، ابن عربی کا صوفی منش گھرانہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؓ سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔ کتابِِ مناقبِ غوثیہ میں شیخ محمد صادق شیبانی قادری لکھتے ہیں کہ ابن عربی کے والد علی بن محمد لاولد تھے۔ حتّٰی کہ ان کی عمر پچاس سال کی ہوگئی۔ وہ حضرت غوث اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی نے اللہ کے حضور دعا کی پھر کچھ دیر آنکھیں بند کرکے مراقبے میں چلے گئے پھر مسکرا کر آپ کے والد کو ہدایت کی اللہ کے فضل و رحمت سے تم اپنے بیٹے کا نام محمد اور لقب محی الدین رکھنا ہے۔ یہ بچّہ یقینا عظیم اور رتبہ عالی پائے گا۔ ابن عربی 17رمضان المبارک 560ھ ( بمطابق 1165ء )میں اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا اور کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی۔ ابن عربی کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عرؒبی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی ؒنے عام بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔ ابن عربی ؒنے سلجوک سلطنت کے دوران سلطان علائوالدین اور خلافت ِ عثمانیہ کے بانی کارولوس عثمان کے والد ارطغرل غازی کی بہت معاونت کی اور اس حوالے سے ابن عربی ؒ نے خوابوں میں ان کی رہنمائی فرمائی۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا کہنا تھا ان کے مزاج میں شدت نہ ہوتی تو بلاشبہ امام احمد رضاؒ خان بریلوی اپنے دور کے امام ابو حنیفہؒ ہوتے یہ خیالات شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا امام ِ اہل ِسنت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کاایک انداز تھا بلا مبالغہ برصغیر میں کوئی دوسرا حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی جیسا ذہین ،فطین،علمی ،فکری اور روحانی پیشو اپیدا نہیں ہوا آپ بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی1000 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ان کا مشہور ترجمہ قرآن مجید کنزالایمان، اسلامی مسائل و الجھنوں کا شافی اور منطقی دلائل پر مشتمل فتاویٰ کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ امام اہل ِ سنت اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی اسلامی اسکالر ، فقیہ ، عالم دین ، مجددِ اہل سنت ، صوفی ، اردو شاعر ، اور اسلام میں چودہویں صدی کے عظیم مصلح تھے حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے قانون ، مذہب ، فلسفہ،منطق ،ریاضی اور دیگر علوم پر لکھا اور خوب لکھاوہ جنوبی ایشیاء میں اہلسنت تحریک کے رہنما بنے اوراربوں لوگوں کو متاثر کیا۔ اعلیٰ حضرت امام اہلِسنت احمد رضاؒ خان بریلوی کی ولادت 14 جون 1856 کو بریلی ، شمالی مغربی صوبے میں ہوئی آپ کے والد ماجد نقی علی خان بھی ایک بلند پایہ عالم ِ دین تھے جبکہ والدو محترمہ کا نام حسینی خانم ہے آپ کو دنیا کے بہت سے علوم اسلامی الہیات ، حدیث ، تفسیر ، فقہ،ریاضی ، اردو شاعری ، تصوف ، سائنس ، فلسفہ ، علمیاتیات ، فلکیات پر ناقابل ِ یقین حد تک عبور حاصل تھامکہ کے مفتی علی بن حسن مالکی نے احمدرضا خان بریلوی کو تمام دینی علوم کا انسائیکلوپیڈیا کہا جو ان کی قابلیت کا اعتراف ہے۔اسی طرح ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری عالم ِ اسلام کی نابغہ روزگار شخصیت ہیں جنہوں نے دور ِ حاضرمیں مسلم معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑے ہیںانہوں نے اسلام کو ایک سانیٹفک انداز میں لوگوںتک پہچایا وہ بلا کے مقررہیں اس حوالے سے انہیں آتش فشاں بھی کہا جاسکتاہے ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلیمی نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلاہواہے ان کا کمال یہ ہے کہ انہوںنے اسلام کی اصل روح کے مطابق تشہیرکی جس سے معاشرے سے نفرتوںکا خاتمہ ہونے میں مدد ملی ہے بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے بھی ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں ان کے سیاسی و مسلکی نظریات سے تو اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک قرآن مجید پر جتنی ریسرچ انہوں نے کی ہے اس کی نظیرنہیں ملتی۔