اپوزیشن کو راس نہیں آرہی ڈبل انجن کی ترقی:مودی
وارانسی:دسمبر۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اترپردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر جمعرات کو منعقد ایک عوامی ریلی سے خطاب میں اپوزیشن جماعتوں پر جم کر نشانہ سادھا۔اور کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو ریاست کی ڈبل انجن کی حکومت کے ترقیاتی کام پسند نہیں آرہے ہیں۔مودی نے وارانسی میں بناس ڈیری پلانٹ اور انٹگریٹیڈ اسپتال سمیت مختلف ترقیاتی پروجکٹوں کا افتتاح و سنگ تقریب میں کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں اترپردیش کو صرف ذات اور مذہب کے نظریہ سے دیکھتی ہیں۔کسی پارٹی یا لیڈر کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا’ کاشی و یوپی کے ترقی میں ڈبل انجن حکومت کی ڈبل طاقت میں بات کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ وہ لوگ یوپی کو صرف ذات، مذہب اور طبقوں کے چشمے سے ہی دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں ڈبل انجن کی حکومت ریاست کی ترقی کے لئے دوہرے اقدام کررہی ہے لیکن ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو اس سے خاصی تکلیف ہورہی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اترپردیش حال اور ماضی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ’گذشتہ حکومتوں میں اترپردیش کو جو ملا اور آج یوپی کے لوگوں کو بی جے پی حکومت سے جو مل رہا ہے اس کا فرق صاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت میں اترپردیش میں ورثہ کو محفوظ رکھتے ہوئے ترقیاتی کام کئے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی اترپردیش میں یوگی حکومت نے گاؤں و کسانوں کو غیر قانونی قبضہ جات کی فکر سے آزاد کراتے ہوئے انہیں خودکفیل بنایا ہے۔ اس کام میں ’ملکیت اسکیم‘ کا اہم کردار ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر مودی نے ملکیت اسکیم کے تحت یوپی کے 20لاکھ کنبوں کو ملکیت کاآن لائن مالکانہ حق جاری کیا۔ اس اسکیم کے مستفیدین میں تقریبا 35ہزار کنبے وارانسی کے بھی شامل ہیں۔مودی نے اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو اترپردیش میں ڈبل انجن کی ترقی راس نہیں آرہی ہے ان کی ڈکشنری میں سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس جیسے لفظ شامل نہیں ہوسکے ہین۔ انہوں نے کہا کہ یہ زبان ان کے نصاب سے باہر ہے ان کے نصاب میں ’مافیا واد،پریوارد اور گھر و زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے۔اس سے قبل مودی نے مویشی پروری کی اہمیت پر بھی گذشتہ حکومتوں میں دھیان نہ دئیے جانے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کو نشانے پر لیا۔ انہوں نے کہا’ گائے کچھ لوگوں کے لئے گناہ ہوسکتی ہے لیکن ہمارے لئے ماں ہے۔جو پوجنے کے لائق ہے۔ گائے بھینس کا مذاق اڑانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہے۔