گواسکر سے لے کر ویرات کوہلی تک، انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتانوں کی تبدیلی پر تنازع کیوں
ممبئی،دسمبر۔انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی سلیکشن کمیٹی نے انڈین کرکٹ ٹیم کے ہونے والے دورۂ جنوبی افریقہ سے سٹار کرکٹر ویرات کوہلی کو ون ڈے کرکٹ کی کپتانی سے ہٹا دیا ہے اور اجنکیا رہانے کی جگہ اب روہت شرما کو ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کا نائب کپتان بنا دیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ویرات کوہلی اب صرف ٹیسٹ کرکٹ میں اور روہت شرما ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں انڈیا کی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہوں گے۔ویرات کوہلی نے 95 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں انڈین کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی ہے جس میں سے انھوں نے 65 میچ جیتے، 27 ہارے، ایک میچ ٹائی ہوا اور دو منسوخ ہوئے۔اتنے مضبوط ریکارڈ کے باوجود وہ اس فارمیٹ میں کپتانی سے کیوں محروم ہوئے؟ کیا آئی سی سی ٹورنامنٹ نہ جیتنے یا بلے بازی میں مسلسل ناکامی اس کی وجہ ہے؟کرکٹ کے تجزیہ کار ایاز میمن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ واضح ہے کہ ہوا کا رْخ بدل رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ویرات کوہلی نے خود ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑی تھی، جب کہ انھوں نے ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کی کپتانی پر بھی بات نہیں کی۔ ٹیسٹ کرکٹ کی کپتانی اب بھی ان کے پاس ہے، لیکن ٹی ٹوئنٹی کے بعد ون ڈے کرکٹ کی کپتانی اب روہت شرما کو سونپ دی گئی ہے۔‘ایاز میمن کہتے ہیں کہ ‘اس کے علاوہ رہانے کو ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی جو نائب کپتانی سونپی گئی تھی، وہ روہت کو سونپنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر انھیں ٹیسٹ میچوں میں بھی انڈین ٹیم کا کپتان بنایا جا سکتا ہے۔’ وہ کہتے ہیں کہ ‘اس کی وجہ اجنکیا رہانے کی دو سال سے خراب فارم ہے، فی الحال ٹیسٹ ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی، ایسی صورتحال میں کسی اور کو نائب کپتان بنانا پڑے گا۔’ان کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ سات ماہ سے حالات بدل رہے تھے۔ انڈیا نے آئی سی سی کا کوئی ٹورنامنٹ بھی نہیں جیتا جس سے ویرات کوہلی پر دباؤ پڑا ہے۔
کوہلی کی کپتانی کیوں گئی؟
ایاز میمن کہتے ہیں کہ ‘کوہلی 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہار گئے۔ رواں برس آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ناک آؤٹ مرحلے تک بھی نہ پہنچ سکے۔ اس سے قبل 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں انڈین ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں ہار، شاید یہ ایک بہت بڑی ناکامی تھی۔‘تاہم دو طرفہ سیریز یا میچوں میں ٹیم کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔ایاز میمن کہتے ہیں کہ ‘بطور کپتان ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ان کا ریکارڈ بھی شاندار ہے۔ لیکن جہاں سہ فریقی ٹورنامنٹ آتے ہیں، وہ کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکے، جبکہ مہندر سنگھ دھونی نے تین ٹورنامنٹ جیتے ہیں۔ بڑے ٹورنامنٹ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، ون ڈے ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی جیسے مقابلے جیتے تھے۔‘ان کے مطابق کوہلی آٹھ دس سیزن کے بعد بھی آئی پی ایل کا کوئی ٹائٹل نہیں جیت سکے۔ ان کے بارے میں یہ قیاس بھی کیا گیا کہ آیا ان میں کوئی کمی ہے، کیا وہ اچھی تیاری نہیں کر سکتے۔ایاز میمن کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ڈھائی سال سے ان کی اپنی فارم بھی اچھی نہیں ہے، جبکہ پہلے ان کا بلا رنز اْگلتا تھا۔ حالانکہ وہ اجنکیا رہانے اور چیتشور پجارا کی طرح خراب فارم میں نہیں ہیں۔ لیکن اگر اتنے لمبے عرصے تک وہ سنچری نہ بنائیں تو لگتا ہی نہیں کہ وہ ویرات کوہلی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ‘ایسے میں سلیکٹرز سوچ رہے تھے کہ کیا ان پر کپتانی کا دباؤ ہے؟ ویسے بھی انڈیا کو کوہلی کی بطور کپتان سے زیادہ بلے باز کے طور پر ضرورت ہے۔’ایاز میمن کا کہنا ہے کہ اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ ہوا کہ اب ٹیسٹ اور ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے الگ الگ کپتان ہوں، یعنی سفید گیند کی کرکٹ کا الگ کپتان اور سرخ گیند کرکٹ فارمیٹ کا الگ کپتان مقرر کیا جائے۔واضح رہے کہ کوہلی پہلے ہی ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑ چکے ہیں۔ایاز میمن کا مزید کہنا ہے کہ ‘انگلینڈ میں سفید گیند کے کپتان ایون مورگن ہیں اور سرخ گیند کے کپتان جو روٹ ہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ کامیاب ہیں۔ جبکہ دوسری جانب نیوزی لینڈ کے کین ولیمسن اور پاکستان کے بابر اعظم تینوں فارمیٹس کے کپتان ہیں۔ ان کے مطابق ویرات کوہلی کچھ عرصہ قبل تک تینوں فارمیٹس کے کپتان تھے۔ لیکن اب بی سی سی آئی چاہتا ہے کہ دو کپتانوں کا ماڈل اپنایا جائے۔‘
ویرات کوہلی کو ون ڈے کی کپتانی سے ہٹانے کا طریقہ کار درست تھا؟
لیکن جس طرح کوہلی کو بغیر کوئی موقع دیے یا بتائے بغیر ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا گیا، کیا یہ ان کی توہین نہیں ہے یا یہ وقت کی ضرورت تھی؟ اس سوال پر ایاز میمن کا کہنا ہے کہ اس پورے معاملے میں ایک بات انھیں ضرور پریشان کر رہی تھی کہ اس معاملے میں بی سی سی آئی کا رویہ کوہلی کے ساتھ انتہائی غیر مہذب تھا۔ایاز میمن کا کہنا ہے کہ ‘شاید کوہلی کو بھی معلوم تھا کہ انھیں کپتانی سے ہٹایا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر روہت شرما ٹی ٹوئنٹی میں کپتانی کر سکتے ہیں تو ون ڈے میں بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن پریس ریلیز میں جس طرح سے جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے منتخب کھلاڑیوں کے نام بتائے گئے اور آخر میں دو سطریں لکھی گئیں کہ روہت شرما ون ڈے ٹیم کے کپتان ہوں گے۔میمن کہتے ہیں کہ ‘پریس ریلیز میں ایک بھی لائن نہیں ہے کہ کوہلی نے بطور کھلاڑی جو کچھ کیا اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ کوہلی ایک بہترین کھلاڑی رہے ہیں۔ بلے باز کے طور پر وہ شاید سچن ٹنڈولکر کے بعد آتے ہیں۔ وہ بحیثیت کپتان بھی کامیاب رہے ہیں۔’ایاز میمن کا کہنا ہے کہ انھیں بی سی سی آئی کا کوہلی کے ساتھ رویہ پسند نہیں آیا۔ تاہم انھیں کپتان مقرر کرنا یا نہیں، یہ بی سی سی آئی کا کام ہے۔ایاز میمن کے مطابق اگر تبدیلی آ رہی ہے اور روہت شرما نے کپتان بننے کی اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس فیصلے میں صرف سیاست ہے۔ لیکن اگر کوہلی کی شراکت کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے اور اگر اس سے انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ قابل فہم ہے۔اس سوال پر اشوک ملہوترا کا کہنا ہے کہ کرکٹ بورڈ نے انھیں موقع دیا تھا۔ بورڈ نے پہلے ہی انھیں کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور انھیں بتا بھی دیا تھا، لیکن کوہلی نے اسے مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ شاید وہ ون ڈے ورلڈ کپ 2023 کی کپتانی کرنا چاہتے تھے۔بورڈ نے کوہلی کو 48 گھنٹے کا وقت دیا تھا کہ آپ باعزت طریقے سے کپتانی چھوڑ دیں، ورنہ ہم روہت شرما کو کپتان بنانے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
روہت شرما کو کپتانی کیوں ملی؟
ایاز میمن کا کہنا ہے کہ ویرات کوہلی پر دباؤ اس لیے بھی بڑھ رہا تھا کہ ان کے سامنے روہت شرما کی شکل میں ایک دعویدار سامنے آیا جو ان کے برابر رنز بنا رہا تھا اور ٹیم میں ان کی جگہ بھی پکی تھی۔ جب کپل دیو اور سنیل گواسکر انڈین کرکٹ ٹیم میں تھے تو دونوں سپر سٹار تھے۔ اگر ایک وہاں نہیں تھا تو دوسرا آپشن کے طور پر موجود تھا۔ محمد اظہر الدین کپتان تھے اور ٹنڈولکر آپشن تھے۔ سورو گنگولی آئے تو راہل ڈراوڈ آپشن تھے۔ لیکن جب گنگولی کا کوچ گریگ چیپل سے جھگڑا ہوا تو فوری طور پر نیا کپتان راہول ڈراوڈ کو مقرر کر دیا گیا، جن کے پاس کرکٹ کا وسیع تجربہ تھا۔ایاز میمن کے مطابق شاید 2019 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں جہاں روہت شرما نے پانچ سنچریاں بنائیں اور پھر ٹیسٹ کرکٹ میں بطور اوپنر انتہائی کامیاب ثابت ہوئے، تب وہ ایک آپشن کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد کوہلی کے آئی سی سی کا کوئی ٹورنامنٹ نہ جیتنے کی وجہ سے اس طرح کی باتوں کو زیادہ وزن ملا۔ یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا کوہلی سے بہتر کپتانی کوئی کر سکتا ہے؟ کیا کپتانی سنبھالنے کے بعد کوہلی کا بیٹنگ لیول بڑھ سکتا ہے؟ سلیکٹرز کے ذہن میں یہ دونوں باتیں آئیں۔ کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی بھی چھوڑ دی تھی، پھر سلیکٹرز نے ان سے ون ڈے کی کپتانی چھین لی۔ان کا کہنا ہے کہ سلیکٹرز نے یہ پیغام بھی دیا کہ ہمیشہ ایک کپتان پر یقین رکھنے والی انڈین کرکٹ ٹیم کے اب دو کپتان ہونے چاہیں۔ایسا پہلے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے، سوائے اس کے کہ دھونی سرخ گیند میں اور کوہلی سفید گیند میں کپتان تھے، کیونکہ دھونی ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ایاز میمن کے مطابق اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اگلے سال ایک اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہونے والا ہے جس میں انھیں روہت شرما کی شکل میں کپتان کی ضرورت ہے۔ ایسے میں روہت شرما اپنے کھلاڑیوں کو ایسی سمت دیں گے کہ وہ ون ڈے میں بھی کارآمد ثابت ہوں اور ویرات کوہلی ٹیسٹ کرکٹ میں جگہ بنا سکیں۔آخر میں ایاز میمن کا کہنا ہے کہ اگر ٹیسٹ کرکٹ میں ویرات کوہلی کی فارم اچھی نہیں ہے اور نتائج بھی توقعات کے مطابق نہیں آتے تو پھر روہت شرما کے نائب کپتان ہونے کی وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹیسٹ کپتانی بھی کوہلی کے ہاتھ سے چلی جائے۔
اس معاملے پر انڈیا کے سابق کرکٹر اور سلیکٹر اشوک ملہوترا کا کہنا ہے کہ جب ویرات کوہلی نے ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑی تھی، تب ہی سے نوشتہ دیوار تھا کہ وہ ون ڈے کرکٹ کے بھی کپتان ہوں گے، کیونکہ وائٹ بال کرکٹ کے دو کپتان نہیں ہو سکتے۔ شاید ویرات کوہلی کو بھی اس بات کا علم تھا جس کی وجہ سے انھوں نے ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی چھوڑ دی تاکہ ان کی ٹیسٹ اور ون ڈے کی کپتانی بچ جائے۔
سوشل میڈیا ردعمل
ویرات کوہلی سے ون ڈے ٹیم کی کپتانی واپس لینے کا معاملہ جو بھی ہو لیکن انڈین سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کوہلی اور شرما کے ٹرینڈز چل رہے ہیں۔ کوہلی کے مداح جہاں بی سی سی آئی کو اپنے فیصلے پر شرم کرنے کا کہہ رہے ہیں وہی روہت شرما اور ویرات کوہلی کی پرفارمنس کا تقابلی جائزہ بھی پیش کر رہے ہیں۔
مگر ان سب میں روہت شرما کے فین بھی انڈین کرکٹ بورڈ کے فیصلے کو سراہتے دکھائی دیتے ہیں۔ایوشمن نامی ایک صارف نے کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے لکھا کہ ‘اس شخص نے ٹیم کو گذشتہ چار پانچ سال سے سہارا دیا ہوا ہے اور آپ لوگوں سے یہ بھی نہ ہوا کہ روہت کو کپتانی دیتے وقت ان سے پوچھ ہی لیتے۔ جے شاہ اور گنگولی کو برطرف کر دینا چاہیے۔ بی سی سی آئی شرم کرو!’جبکہ پریانکا نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی، انھوں نے ویرات کوہلی کو کپتانی سے ہٹائے جانے پر تبصرہ کیا کہ ‘جو کوہلی نے لیجنڈری انیل کمبلے کے ساتھ کیا تھا ویسا ہی ان کے ساتھ ہو گیا۔ مجھے افسوس ہے جیسا ویرات آپ کے ساتھ ہوا لیکن کیا آپ جانتے ہیں آپ اس کے ہی حقدار تھے۔ کوہلی بین الاقوامی کرکٹ میں ممکنہ طور پر ایک بہترین کھلاڑی تو ہو سکتے ہیں لیکن کپتانی ان کے بس کی بات نہیں۔’ایک اور صارف نے کوہلی کو کرکٹ میں خدمات پر خراج تحسین دیتے ہوئے لکھا کہ ‘کپتان آپ کی تمام خدمات کا بہت شکریہ، آپ کی قیادت میں انڈیا پہلی مرتبہ تینوں فارمیٹس میں دنیا کی نمبر ایک ٹیم بنی، ہم اپنے جارحانہ کپتان کو بہت یاد کریں گے اور تو تمام ٹرولز جو آپ کو کپتانی سے ہٹانا چاہتے تھے بہت جلد آپ کی کپتانی کی ضرورت کو محسوس کریں گے۔’ایک اور صارف کا کرکٹ بورڈ پر تبصرہ تھا کہ ‘شرما یقیناً اس موقع کے حقدار ہیں کیونکہ ان میں کپتانی کی صلاحیت ہے۔ لیکن ویرات کوہلی کی بھی انڈین ٹیم کے ڈریسنگ روم میں بطور ایک لیڈر کے بہت ضرورت ہے۔‘’ضروری یہ ہے کہ انھیں اعتماد میں لیا گیا ہے اور راہل ڈراوڈ یہ یقینی بنائیں کہ تمام چیزیں واضح ہے کیونکہ انڈین کرکٹ کو اس کی ضرورت ہے۔‘
انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان بدلنے کی دلچسپ تاریخ
اب ایسا بھی نہیں کہ اس سے پہلے بھی بغیر بتائے کپتان بنائے یا ہٹائے گئے نہ ہوں۔ سنہ 1975 میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم انڈیا کے دورے پر آئی تھی تو دلی میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل یہ بات چل رہی تھی کہ فرخ انجینیئر زخمی منصور علی خان پٹودی کی جگہ لیں گے لیکن وینکٹاراگھاون کپتان بن گئے۔ تو کیا ہر بار صحیح کپتان کا انتخاب کیا جاتا ہے؟اس بارے میں ایاز میمن کا کہنا ہے کہ سب مختلف مراحل سے گزرے ہیں۔ 1975 میں، شاید فرخ انجینیئر نے بھی ٹاس پر رضامندی ظاہر کی تھی، لیکن وینکٹاراگھاون کو آخری لمحات میں کپتان قرار دے دیا گیا۔ایاز میمن بتاتے ہیں کہ انڈین کرکٹ میں علاقائی سیاست گذشتہ 20-25 برسوں میں کم ہوئی ہے، حالانکہ یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے کی طرح اب بھی کوئی کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا، چاہے ملکی کرکٹ ہی برباد کیوں نہ ہو جائے۔اور انڈین کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی کہانی بہت رنگین ہے۔ شروع سے ہی جب سی کے نائیڈو کو کپتان بنایا گیا تو اس سے پہلے وجیا نگرم کو آفیشل کپتان بنایا گیا تھا جبکہ وہ ایک کھلاڑی بھی نہیں تھے۔ سی کے نائیڈو کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں تھے۔ایاز میمن کا کہنا ہے کہ ‘انڈین کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا معاملہ ہمیشہ متنازع رہا ہے۔ جب سینیئر نواب پٹودی کپتان بنے تو سوال کیے گئے کہ وجے مرچنٹ کیوں کپتان نہیں بنے۔ جب وجے ہزارے کو کپتان بنایا گیا تو وجے سوداگر کیوں نہیں بنے؟‘سنہ 1958-59 کی سیریز میں انڈیا کے چار کپتان تھے۔ کپتانی میں تسلسل منصور علی خان پٹودی کے کپتان بننے کے بعد سے آیا، جو 21-22 سال کی عمر میں کپتان بننے کے بعد چھ سات سال تک کپتان رہے۔ایاز میمن کے مطابق کپتانی کا چکر ہمیشہ گھومتا رہا ہے۔ کپل دیو اور سنیل گواسکر کو ایسے بطور کپتان تبدیل کیا جاتا تھا جیسے ٹیبل ٹینس کے کھلاڑیوں کو کیا جاتا ہے۔ کبھی کپل کپتان اور کبھی گواسکر کپتان۔ یہ سب بی سی سی آئی کے عہدیداروں کی وجہ سے تھا، جو اپنی ترجیحات کے ساتھ سامنے آتے تھے نہ کہ کرکٹ کے بارے سوچ کے ساتھ۔
ایاز میمن کا مزید کہنا ہے کہ ‘بی سی سی آئی کے اس رویے کی وجہ سے سنیل گواسکر نے 1985 میں چیمپیئنز آف چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کے بعد کپتانی چھوڑ دی تھی۔ اسی طرح راہل ڈراوڈ نے بھی 2007 میں کپتانی چھوڑ دی تھی، جب انھوں نے انگلینڈ کے خلاف سیریز جیتی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹنگ پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔‘ایاز میمن مزید بتاتے ہیں کہ سچن تندولکر بھی دو بار کپتان بنے۔ دوسری بار بیٹنگ پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا کہتے ہوئے کپتانی بھی چھوڑ دی۔ ان کے بعد سورو گنگولی نے کامیاب کپتانی کی، کیونکہ تب تک کپتان کو کافی حقوق مل چکے تھے۔وہ اپنی مرضی کے مطابق کھلاڑیوں کا انتخاب کر سکتے تھے۔ مہندر سنگھ دھونی نے بھی ٹیسٹ کرکٹ کی کپتانی چھوڑ دی۔ محمد اظہر الدین طویل عرصے تک انڈیا کے کپتان رہے لیکن میچ فکسنگ کے الزامات کے باعث انھیں ٹیم سے فارغ کر دیا گیا۔جیسا بھی ہو، ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ انڈیا میں کرکٹ ٹیم کی کپتانی کانٹوں سے بھرا تاج ہونے کے باوجود کوئی بھی کھلاڑی اسے آسانی سے نہیں چھوڑتا۔