آسٹریلیا کے لیے نیا دور، ایشز روٹ کے لیے خود کو ثابت کر نے والی سیریز
برسبین، دسمبر۔آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان بدھ سے یہاں شروع ہونے والے پہلے ایشز ٹیسٹ میں دونوں ٹیموں کی ساکھ داؤ پر لگے گی۔ آسٹریلیا کو نئے کپتان پیٹ کمنز کی قیادت میں چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ انگلینڈ کو تجربہ کار جو روٹ کی رہنمائی حاصل ہوگی۔ یہ سیریز جو روٹ کی کپتانی کے ساتھ ساتھ ان کے دو عظیم فاسٹ بولرز جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ کی میراث ثابت کرنے والی ہوگی، جن کا بالترتیب پانچواں اور چوتھا آسٹریلیا دورہ ہے۔ روٹ اپنے کیریئر کی بہترین فارم میں کے وقت یہاں پر آئے ہیں جبکہ اینڈرسن اور براڈ کی فٹنس پر سوالیہ نشان ہے۔ بین اسٹوکس ٹیم میں ہیں، لیکن انہوں نے جولائی سے کرکٹ نہیں کھیلا اور مارچ سے گلابی گیند سے کرکٹ نہیں کھیلا۔ تاہم، ان کی کلاس اور مسابقت پر کبھی سوال نہیں کیا جا سکتا۔ انگلینڈ نے آسٹریلیا میں اپنے آخری 10 میں سے 9 ٹیسٹ ہارے ہیں اور ایک بھی نہیں جیتا ہے۔ اگر ہم آسٹریلیا میں انگلینڈ کے آخری 20 ٹیسٹ میچوں کی بات کریں تو انگلش ٹیم نے تین میں جیت ، 15 میں ہار اور دو ڈرا کھیلے ہیں۔ ُکک نےاس دوران 67، ناٹ آؤٹ235 ، 148، 82، 189 اور 244 ناٹ آؤٹ کے اسکور بنائے ہیں۔ اگر روٹ کو انگلینڈ کے کپتان کی حیثیت سے اپنی وراثت کو مستحکم کرنا ہے تو کچھ ایسا ہی کمال دکھانا ہوگا۔ انگلینڈ کے اوپنرز نے آسٹریلیا میں جیوف بائیکاٹ، کرس براڈ اور کک کے ساتھ ایشیز کی کامیابی کی کلید رکھی ہے، جس میں بالترتیب 1970-71، 1986-87 اور 2010-11 میں انگلینڈ کی جیت میں مدد ملی ، جبکہ مائیکل وان نے 2002 میں تین سنچریاں بنائیں اور سیریز میں انگلینڈ کو وائٹ واش سے بچایاتھا۔ اس کے بعد بائیں ہاتھ کے بلے باز روری برنز کا نام آتا ہے جنہوں نے آسٹریلیا کے خلاف 2019 کی ایشز سیریز میں ایجبسٹن میں سنچری اور دیگر میچوں میں دو نصف سنچریاں بنا کر آسٹریلیا کے تیز بولنگ اٹیک کے خلاف خود کو ثابت کیا۔ اس نے گزشتہ موسم گرما کے اوائل میں گھر پر نیوزی لینڈ کے خلاف اور بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن ہندوستان کے خلاف ان کا تجربہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب ہیڈنگلے میں انہوں نے 153 گیندوں پر 61 رنز بنا کر سیریز برابری پرلا دی۔ اگر انگلینڈ کو جیتنا ہے تو برنز کو اس سیریز میں ایک سے زیادہ سنچری لگانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ وان نے کیا تھا۔ ویسے تین سنچریاں بھی کافی نہیں ہو سکتیں۔ آسٹریلیا کے اوپنر ڈیویڈ وارنر کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ٹیسٹ بلے باز کے طورپر وہ حال میں کہاں ہیں۔اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ انہوں نے 23 مہینوں میں صرف دو ٹیسٹ کھیلے ہیں اور دونوں میں وہ زخمی ہوئے ہیں۔ وارنر کو اپنے ساتھ کی تلاش ہے لیکن وارنر کا فارم خود بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔ٹی 20 ورلڈ کپ نے ثابت کردیا کہ جب وہ کسی بھی فارمیٹ میں رنز بناتے ہیں تو آسٹریلیا ٹرافی جیتتا ہے۔ وہ گابا میں پہلی صبح کے دو گھنٹے میں ہی انگلینڈ کے ہاتھوں سے سیریز چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن 2019 اور براڈ کا بھوت آج بھی ان کے دل میں بیٹھا ہوا ہوگا۔اگر براڈ اور اینڈرسن دونوں برسبین میں نہیں کھیلتے ہیں،تو یقینی طورپر وارنر چین کی سانس لیں گے۔ اگر وہ لابوشین اور اسمتھ کو کریز دیتے ہیں تو آسٹریلیا کے گیند بازوں کو بچاؤ کےلئے اچھا اسکور مل سکتا ہے۔تب گھریلوٹیم کو روکنا بہت مشکل ہوگا۔آسٹریلیا نے بغیر زیادہ جھجھک کے اپنی ون ڈے چنی ہے۔ وارنر کے ساتھ کے طورپر مارکس ہیرس کا نام کافی پہلی چن لیا گیا تھا،جبکہ مچیل اسٹارک اور جوئے ریچرڈسن کے درمیان الیکشن پر عوامی طورپر بہت بحث تھی،لیکن اسٹارک کو اپنے انتخاب پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ جاش انگلس کے بارے میں کچھ غور و خوض کے بعد آخر کار ایلکس کیری کو پین کی جگہ پر وکٹ کیپر منتخب کیا گیا۔ مڈل آرڈر میں بلے بازی کرنے کا آخری فیصلہ ٹریوس ہیڈ اور عثمان خواجہ کے درمیان تھا۔خواجہ کے تجربہ اور گابا میں کہیں بہتر ریکارڈ کے باوجود سلیکٹرس نے نوجوان کھلاڑی ہیڈ کا انتخاب کیا۔ایڈیلیڈ ٹیسٹ کی تیاریوں کی وجہ سے انگلینڈ جیمس اینڈرسن کو آرام دے رہا ہے،جبکہ نمبر چھ کےلئے اولی پوپ کو چنا گیا ہے،جو تجربہ کاری بیئرسٹو کی جگہ آسٹریلیا میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلں گے۔کوینسلینڈ میں پچھلے ایک مہینے سے بارش ہورہی ہے۔پچھلے ایک ہفتے سے کچھ راحت تو ہے لیکن پہلے دو دنوں تک بارش اور گرج کے ساتھ بوچھاریں پڑنے کا امکان ہے۔میچ سے ایک دن پہلے پچ پر ہر گھانس تھی۔لیکن کمنس کا خیال تھا کہ یہ ایک عام گابا سطح کی طرح لگ رہا تھا۔