ترکی کا ’گرتا ہوا لیرا‘ جلد مستحکم ہوجائے گا: صدر ایردوآن
انقرہ،دسمبر۔ترک صدر طیب ایردوآن نے اس امید کا اظہارکیا ہے کہ غیرمستحکم زرمبادلہ اور افراط زر کی شرح جلد ہی مستحکم ہوجائے گی۔انھوں نے ایک مرتبہ پھر ملکی کرنسی کی قدر میں تاریخی کمی کے باوجود کم شرح سود کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔لیرا کی قدر میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران میں شرح سود میں جارحانہ کٹوتی کی وجہ سے قریباً30 فی صد تک کمی واقع ہوئی تھی لیکن معاشی ماہرین اور حزب اختلاف کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں افراط زرکی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے جزوی طور پر بے پروائی برتی گئی ہے۔صدرایردوآن نے مشرقی شہر سیرت میں ایک اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اللہ نے چاہا تو ہم قیمتوں اور کرنسی کی شرح تبادلہ میں تمام اتارچڑھاؤ کو مستحکم کر دیں گے۔انھوں نے کہا کہ ’’میں نے گذشتہ روز کم شرح سود کہا، آج کم شرح سود کہتاہو اور کل بھی شرح سود کم کرنے کا کہوں گا۔میں اس پرکبھی سمجھوتا نہیں کروں گا کیونکہ شرح سود ایک ایسی بیماری ہے جوامیروں کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بناتی ہے‘‘۔لیرا گذشتہ منگل کو ڈالر کے مقابلے میں بنکوں میں ریکارڈ کم ترین سطح 14 کو چھو گیا اور جمعہ کواس کا لین دین ریکارڈ 13.7485 پر بند ہوا تھا۔ یہ اس سال ابھرتی ہوئی منڈیوں میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی ہے جو اپنی قیمت کا 45 فی صد کھوچکی ہے۔ترکی میں گذشتہ ماہ افراط زرکی شرح تین سال کی بلند ترین سطح 21.3 فی صد تک پہنچ گئی تھی جس کے نتیجے میں ترکی کی حقیقی شرح نموانتہائی منفی ہو گئی تھی جو فرار ہوتے سرمایہ کاروں اور ترک بچت کرنے والوں کے لیے سرخ یعنی خطرے کی جھنڈی تھی۔مگرحزب اختلاف کی جانب سے قبل ازوقت انتخابات اور پالیسی میں تبدیلی کے مطالبے کے باوجود صدرایردوآن نے حالیہ ہفتوں میں اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ برآمدات، کریڈٹ، ملازمتوں اور معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے شرح سود میں کمی کی ضرورت ہے۔صدر کے دباؤ میں ترکی کے مرکزی بنک نے گذشتہ ماہ اپنی پالیسی شرح میں 400 بیس پوائنٹس کی کمی کرکے 15 فی صدکر دی ہے اور توقع ہے کہ رواں ماہ دوبارہ پالیسی میں نرمی کی جائے گی۔ترک صدر کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہمیشہ کم شرح سود والے پیداکنندگان اور آجروں کے لیے موجود رہیں گے۔ہم افراط زر کے خلاف کارکنوں کی حفاظت کے لیے احتیاطی تدابیر کا نفاذشروع کر رہے ہیں۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’غیرمخصوص غیرملکی اداکاروں کے ساتھ ساتھ ’’لالچی‘‘ذخیرہ اندوز کاروباری بھی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے جزوی طور پرذمے دار ہیں کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ سامان ذخیرہ کرلیتے ہیں۔‘‘