ڈائنوسار کی دو نئی اقسام دریافت جو ساڑھے بارہ کروڑ سال پہلے گھوما پھرا کرتے تھے

لندن،اکتوبر۔سائنسدانوں کو معدوم جانور ڈائنوسار کی دو نئی اقسام کی دریافت ہوئی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ساڑھے بارہ کروڑ سال قبل انگلینڈ کے جنوب میں گھوما پھرا کرتے تھے۔اس دریافت نے دائنوسار شکاری جاندار پر نئی روشنی ڈالی ہے۔قدیم حیاتیات کے ماہرین نے ان گوشت خور رینگنے والے جانوروں میں سے ایک کو دوزخ کا بگلا قرار دیا ہے کیونکہ اس کے شکار کے انداز کا موازنہ خوفناک پرندوں کے شکار کے طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔تین انگوٹھوں والے ڈائنوسار کی باقیات انگلینڈ میں آئل آف وائٹ کے ساحل پر پائی گئی ہیں۔ان کا تعلق اسپینوسوریڈ یعنی خاردار بدن والے جانوروں کے اقسام سے تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی لمبائی نو میٹر (29 فٹ) رہی ہوگی اور کھوپڑی کا سائز ایک میٹر (3 فٹ) لمبا خیال کیا جاتا ہے۔ان کی تقریباً 50 ہڈیوں کو کھود کر نکالنے اور یکجا کرنے میں کئی سال لگے۔پہلے نمونے کا سیراتوسوچوپس انفروڈیوس یعنی ایک قسم کا سماروغ نام دیا گیا ہے اور اس پر سینگ والے مگرمچھ جیسے دوزخی بگلے کا لیبل لگایا گیا ہے۔چھوٹے سینگوں اور ابرو کے گرد اوبڑ کھابڑ حصے کی وجہ سے بھی اسے شکاری بگلے کی طرح شکار کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔دوسرے کو رپرووینیٹر ملنیریا کہا گیا ہے جس کا ترجمہ برطانوی قدیم حیاتیات کی ماہر انجیلا ملنر کے اعزاز میں ملنر کے دریائی کناروں کے شکاری کے طور پر کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ان کی موت ہو گئی ہے۔محجر جمع کرنے والوں کو ابتدائی طور پر ڈائنوسار کی دو کھوپڑیوں کے کچھ حصے ملے تھے اس کے بعد جزیرے کے ڈاینوسار آئل میوزیم کی ایک ٹیم نے ایک دم کے بڑے حصے کو کھود کر نکالا۔یہ آخری سپینوسوریڈ کنکال کے بعد سمانے آنے والا کنکال ہے جو بیریونیکس سے تعلق رکھتا ہے اور اسے سنہ 1983 میں سرے کی ایک کان سے دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے صرف سنگل ہڈیاں اور الگ الگ دانت ملے تھے۔ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق کے مصنف اور پی ایچ ڈی سکالر کرس بارکر نے کہا: ہم نے صرف مختلف النوع کھوپڑیاں ہی دریافت نہ کیں بلکہ بیریونیکس کو بھی ایک دوسرے سے مختلف پایا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے تصور کیے جانے کے برخلاف برطانیہ میں سپنوسورائڈز کی کہیں زیادہ اقسام تھیں۔ برطانوی تھیروپوڈ ڈایناسور کے ماہر اور تحقیق کے شریک مصنف ڈیرن نیش نے کہا: ہم کئی دہائیوں سے جانتے رہے ہیں کہ بیریونیکس ڈائنوسار آئل آف وائٹ پر دریافت ہو سکتے ہیں لیکن تقریباً ایک ہی طرح کے دو ایسے جانوروں کی باقیات کی تلاش اور وہ بھی کم وقفے میں بہت بڑی حیرت کی بات ہے۔ اس تحقیق میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں پھیلنے سے پہلے اسپینوسورائڈز یورپ میں کیسے پھلے پھولے ہوں گے۔تقریباً 50 ہڈیوں کے مجموعے کو سینڈاؤن میں ڈاینو سار آئل میوزیم میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔کیوریٹر ڈاکٹر مارٹن منٹ نے کہا کہ دریافتوں نے آئل آف وائٹ کی حیثیت کو مستحکم کیا ہے کیونکہ یورپ میں ڈاینو سار کی باقیات کے لیے یہ ایک اہم مقام ہے۔

Related Articles