برطانیہ کرپٹ ملک نہیں، ارکان پارلیمنٹ کی سخت سکروٹنی کی جاتی ہے: بورس جانسن
لندن ،نومبر۔وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ برطانیہ کرپٹ ملک نہیں ہے، یہاں ارکان پارلیمنٹ کو سخت سکروٹنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قانون شکنی کرنے والوں کو سزا دی جانی چاہئے۔ انھوں نے یہ باتیں گلاسگو میں COP26کلائمٹ کانفرنس کے موقع پر عالمی میڈیا سے باتیں کرتے ہوئیکہیں۔ یہ مسئلہ کنزرویٹو پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی دوسری ملازمتوں کے تنازعہ کی وجہ سے سامنے آیا ہے، جس کے بعد سرجیوفرے کاکس کے خلاف دارالعوام کے دفتر میں باہر کے بامعاوضہ کام کی انجام دہی کی تفتیش شروع کردی گئی ہے جبکہ ارکان پارلیمنٹ سے متعلق رولز میں بامعاوضہ لابنگ، رقم لے کر حکومت کی پالیسی پر اثرانداز ہونے پر پابندی ہے۔ کاکس نے کسی طرح کی قانون شکنی کی تردید کی ہے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کے حوالے سے شائع ہونے والی شہہ سرخیوں پر تشویش میں مبتلا عوام کیلئے کوئی پیغام دینا چاہیں گے تو بورس جانسن نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ برطانیہ کوئی کرپٹ ملک نہیں ہے، ہمارے ادارے کرپٹ نہیں ہیں، ہماری پارلیمانی جمہوریت اور سکروٹنی کا بہت سخت سسٹم موجود ہے، جو میڈیا سے کم نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں بھی آپ کو یہی نظر آیا ہوگا، افسوس کی بات ہے کہ ماضی میں ارکان پارلیمنٹ نے رولز توڑے اور ہوسکتا ہے کہ اب بھی وہ رولز توڑنے میں ملوث ہوں، میں ایسے لوگوں پر مناسب پابندیاں دیکھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کو، جن میں ڈاکٹر اور وکیل شامل ہیں، سیکڑوں سال سے دوسری ملازمت کرنے کی اجازت ہے۔ 61 سالہ سر جیوفرے کو، جو 2005 سے ویسٹ ڈیوون کے حلقے سے رکن پارلیمنٹ ہیں، اپنے دارالعوام کے دفتر میں بامعاوضہ کام کی انجام دہی کرتے ہوئے ویڈیو فوٹیج جاری ہونے کے بعد سوالات کا سامنا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل، جو رکن پارلیمنٹ ہوتے ہوئے بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس بھی کر رہے تھے، برٹش ورجن آئی لینڈ میں مبینہ کرپشن کی انکوائری میں ورچوئل سماعت میں شریک ہیں۔ارکان پارلیمنٹ کو دوسری ملازمت کرنے کی اجازت ہے لیکن انھیں مالی مفادات کیلئے سرکاری وسائل اورپارلیمانی دفاتر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتہ ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اوون پیٹرسن کمپنیوں کی جانب سے حکومت میں لابنگ کرنے اور کاروباری میٹنگز کیلئے اپنا دارالعوام کا دفتر استعمال کر کے رولز کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے تھے، جس پر انھوں نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ پیٹرسن نے بھی دارالعوام کے لابنگ رولز کی خلاف ورزی کرنے کی تردید کی تھی۔ انھوں نے کیتھرین سٹون کی جانب سے کی گئی انکوائری کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے سٹینڈرڈ کمشنر کی جانب سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ حکومت نے ان کو 30 دن کیلئے معطل کرنے کی راہ روکتے ہوئے تجویز دی تھی کہ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تفتیش کے پورے سسٹم پر نظر ثانی کی جائے لیکن اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے زبردست ردعمل کے بعد دوسرے ہی دن وزرا نے یوٹرن لے لیا تھا اور بدھ کو دارلعوام کے سپیکر لنزے ہوئلز سے اس تنازعہ کو پارلیمنٹ کیلئے سیاہ دن قرار دیتے ہوئے مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو زیادہ بہتر جگہ بنانے کیلئے کام کریں۔ بورس جانسن سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ گزشتہ ہفتہ قانون دوبارہ تحریر کرانے کی کوشش پر معذرت کریں گے لیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس پر لیبر پارٹی کی ڈپٹی لیڈر انجیلا رینر نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے معذرت سے گریز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈائوننگ سٹریٹ، اپنی حکومت اور کنزرویٹو پارٹی میں پھیلی ہوئی کرپشن کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے بہانے بازیاں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم بورس جانسن خود بھی کئی بار ارکان پارلیمنٹ کیلئے معیاری قوانین کی خلاف ورزی کرچکے ہیں، 2019 میں ان پر سمرسٹ کی پراپرٹی میں مالی مفادات ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، 2018 میں بھی ان کو رائلٹی کے طورپر ملنے والے 52,000 پونڈ کا ظاہر کرنے میں تاخیر کرنے پر معذرت کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔