ہم مختلف فارمیٹ کے لیے الگ الگ ٹیموں کو میدان میں اُتارسکتے ہیں: ارون

دبئی، نومبر۔بھرت ارون ٹی20 عالمی کپ کے بعد ہندستانی ٹیم کے گیند بازی کوچ نہیں رہیں گے۔ ان کی مدت کار پیر کو ختم ہوجائے گی اور انہوں نے بیرون ملک میں ٹسٹ کرکٹ میں ہندستان کی گزشتہ دو سالوں میں کامیابی کے سلسلے میں اپنے کام پر گفتگو کی۔ ارون کی مدت کار کے ختم ہونے کا مطلب ہے کہ ہندستانی کرکٹ کے سب سے کامیاب پروجیکٹ کا ختم ہونا۔ ان کی یہ مدت کار روی شاستری کے اگست 2017 میں دوسری بار ٹیم کے چیف کوچ بننے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ارون کی مدت کار میں ہندستان کے تیز گیند بازوں نے ٹسٹ کرکٹ میں کامیابی کی نئی بلندیاں حاصل کیں۔ ایک مضبوط ورک لوڈ سسٹم اور اچھے گیندی منصوبے سے ہندستان زخمی گیند بازوں کے باوجود آسٹریلیا میں سیریز جیت گیا۔ ہندستان کی بیرون ملک میں شاندار کامیابیوں کے پس پشت تیز گیند بازوں نے اہم رول ادا کیا۔ ارون نے کہا کہ کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا لیکن مجھے لگتاہے کہ جہاں سے ہم نے شروعات کی وہاں سے اب ٹیم اچھی حالت میں ہے۔ اس لیے میں خوش ہوں۔ میرے کریئر کا عروج یہی ہے کہ ہمارے پاس اب ایسی گیند بازی ہے اور ہم نے بیرون ملک میں کئی ٹسٹ جیتے ہیں۔ ایک ٹیم کے طورپر ہم یہی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ عروج تک پہنچنا تو یہی ہے کہ ہم نے آسٹریلیا میں مسلسل دو سیریز جیتے۔ انگلینڈ میں بھی مجھے پتہ ہے کہ اس سریز میں ابھی ایک ٹسٹ اور باقی ہے لیکن اس سیریز کے دوران ہمارا پرفارمنس بہترین تھا۔ ارون کاکرکٹ کریئر 29 سال کی عمر میں ختم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے گیند بازی کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے کوچنگ لی۔ انہوں نے عزم کیا کہ وہ اپنا علم آنے والی نسلوں کو منتقل گے۔ ان کی مدت کار میں ہندستان کے تیز گیند بازوں کی فٹ نیس شاندار رہی۔ انہوں نے کہاکہ ہم سبھی ساتھ مل کر یہی کہتے تھے کہ ہمارے پاس کافی تیز گیند باز ہیں۔ لیکن ہم نے ان کے جوش وولولہ میں نظم و ضبط لایا۔ بس یہی ہمارے پاس جیتے کا موقع تھا۔ اس کے علاوہ ٹیم انتظامیہ نے بھی پانچ گیند بازوں کو کھلانے کا بے حد بے باکانہ فیصلہ لیا۔ پہلے ہم صرف چار گیند بازوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور کوئی ایسا کھلاڑی جو گیند بازی بھی کرسکتا تھا لیکن ابھی ہم پانچ باقاعدہ گیند گازوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے لگتاہے کہ یہ بے باک قدم ہے۔ کیوں کہ ہم نے کہا کہ بلے بازی گروپ کو قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، اگر ہمیں بیرون ملک میں جیتنے کی ضرورت ہے تو ہمیں اضافی ذمہ داری لینی ہوگی۔ ہمیں ہر وقت 20 وکٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس لیے ہر میچ میں کم سے کم پانچ گیند بازوں کے کھیلنے کا ہمیں فائدہ ہوا۔ وکٹ کیپر کا ایک بہترین بلے باز ہونا بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ہندستان میں کئی گیند بازوں کو سینئر ٹیم میں شامل کیا ہے، خاص طورپرگزشتہ دس مہینے میں۔ محمد سراج، شاردل ٹھاکر، اکشر پٹیل اور واشنگٹن سندر نے جسپریت بمراہ، ایشانت شرما، محمد شمی، امیش یادو اور دو فرنٹ لائن سپنروں اور اشونی اور روندر جڈیجا کے بیک کے طورپر کامیابی کو حاصل کرتے دیکھا ہے۔ ارون نے کرشنا کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس میں خوداعتمادی ہے اور ہندستان کی آئندہ نسل اچھی حالت میں ہے۔ حالانکہ زیادہ کرکٹ ہونے کی بات پر انہوںنے عندیہ دیا کہ یہ ہندستان کے لیے اپنے بیک اپ کا استعمال کرنے کا وقت ہے تاکہ یقینی ہوسکے کہ ہر کوئی ترو تازہ رہے۔ اگرچہ فارمیٹ میں الگ الگ گیند بازوں کو کھیلنا ہو۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف کرکٹ زیادہ ہورہا ہے بلکہ بایو ببل بھی مشکل ہورہا ہے۔ میں گارنٹی دے سکتا ہوں کہ بایو ببل میں رہنا اور پورے سال کھیل کو دیکھنا آسان نہیں ہے۔ انہیں کچھ بریک کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ مجھے لگتاہے کہ دماغی صحت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ہمارے لیے بہتر ہوگا ، کم سے کم اگلے ایک یا دو سال کے لیے۔ اس لیے یہ اہم ہے کہ ہم تینوں فارمیٹ میں الگ الگ گیند باز کھلائیں۔ ارون نے کہا کہ ہمارے پاس تیز گیند بازوں کا ایک بہت اچھا گروپ ہے، ہمارے ملک میں کافی صلاحیت ہے۔ اس لیے ہم الگ الگ فارمیٹ کے لیے الگ الگ ٹیموں کو میدان میں اتارسکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ہم دستیاب صلاحیتوں کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ یہ ہمارے گیند بازوں کو دماغی اور جسمانی طورپر بھی کافی تروتازہ رکھتا ہے۔

 

Related Articles