امریکہ اورچین کے تعلقات کے مرکز میں تائیوان
پروفیسرعتیق احمدفاروقی
امریکہ اورچین کے مابین بڑھتے چوطرفہ ٹکراؤ کے بیچ تائیوان تنازعہ کا سب سے بڑا سبب بناہوا ہے ۔اِس معاملے میں امریکہ لمبے عرصے سے توازن بنائے رکھنے کی جو قواعد کرتاآیاہے اُسے قائم رکھ پانا اب مشکل ہوگیاہے۔ لب لباب یہ ہے کہ آج ہند-بحرالکاہل علاقہ طاقتی توازن میں عبوری دور کی گواہی دے رہاہے۔ ایسا عبوری دور ماضی میںکبھی نہیں دیکھاگیا۔ اِس کے اثرات بھی وسیع اوردوررس دکھائی دے رہے ہیں۔ جیسے جیسے چین اڑیل رویہ اپناکر جارح بن رہاہے ویسے ویسے امریکہ اپنے علاقائی دوستوںکے تعاون سے سخت جواب دینے کی تیاری میں ہے۔ اِن حالات میں بڑھتے علاقائی دباؤ کو دور کرنے کیلئے کوئی ادارہ جاتی ڈھانچہ بھی موجودنہیں ہے جو ثالث کے ذریعہ یہ ٹکراؤ ختم کرسکے۔ اِتنا ہی نہیں اِس عبوری کا دائرہ اوررفتار اِتنی تیزی سے بڑھ رہاہے کہ اُس کے اثر سے تال ملانے میں علاقائی فریقین کو مشکلیں پیش آرہی ہیں۔ اِس طریقۂ عمل کے نتیجہ کااثر بھی خاص کر منفی ہی ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں سبھی کی جانب سے سخت اشارے دیکھنے کوملے ہیں۔ چینی صدر شی چن فنگ نے تائیوان کے نیز اتحاد کے عمل کی لازمیت کی ایک طرح سے دھمکی دی ہے۔تائیوان’ نیشنل ڈے ‘کے موقع پر تائیوانی صدر سائی اِنگ وین نے چن فنگ کی اِس دھمکی کا جواب دیتے ہوئے دوٹوک لہجہ میں کہاکہ اُن کاملک چینی دباؤ کے آگے کبھی نہیں جھکے گا اورہر حال میں اپنی جمہوری زندگی کا تحفظ کرے گا۔ بیجنگ کے تئیں سخت رویہ نے سائی کوگھریلو سطح پربہت مقبول بنادیاہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں جمہوری اقدار کو خاصی اہمیت دے کر اُسے اپنی ڈھال بنالیاہے۔ انہوں نے تائیوان کی تقدیر کو ایشیاء میں امن اورجمہوریت کے ساتھ بہت مؤثر طریقہ سے جوڑد یاہے۔ وہیں بیجنگ اِن پہلوؤں پر خطرہ لے کر فائدہ اُٹھانے کی فراق میں ہے۔ اِسی کڑی میں وہ تائیوان حفاظتی لائن کی صلاحیتوں کو جانچنے کے ساتھ ہی اِس بات کا بھی امتحان لیتادِکھ رہاہے کہ اِس معاملے میں امریکہ کس حدتک جاسکتاہے ۔ جے -16فائٹر س اور جوہری صلاحیت رکھنے والا ایچ-6بامبر جیسے چینی لڑاکو جہاز لگاتار بڑی تعداد میں تائیوانی ہوائی علاقہ میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس طرح چین اِس علاقہ میں کئی جگہوں پر امن اوراستحکام والی موجودہ صورتحال کو بدلنے پر آمادہ ہے کچھ ویسے ہی کام وہ تائیوان کو لیکر بھی کررہاہے۔ وہی بیجنگ میں اِس پر نئے سرے سے فکر بڑھ گئی ہے کہ تائیوانی حکومت آزادی کارسمی اعلان کرنے کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اِسی کڑی میںچین جوفوجی قلا بازیاں دکھارہاہے اس نے ایک طرح سے تائیوان اوراس کے حامیوں کو دھمکانے کی ہی کوشش کی ہے کہ بیجنگ کسی بھی طرح کی فوجی کارروائی کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
بین الاقوامی برادری میں تائیوان کو فی الحال جتنی توجہ مل رہی ہے اُتنی ماضی میں کچھ دہائیوںکے دوران کبھی نہیں ملی۔ جہاں تائیوان کے حق میں مثبت ماحول بناہے وہیں چین کے وقار کودھچکالگاہے۔ اِس کے باوجود تائیوان کے مستقبل کو لیکر فکر میں اضافہ ہواہے کیونکہ بیجنگ کے ذریعے جارح فوجی طاقت کے مظاہرے کاسلسلہ مستقبل میں اوربڑھنے کاامکان ہے۔ ایسے بگڑتے حالات کے درمیان چینی صدر چن فنگ اورامریکی صدر جو بائیڈن نے باہمی رابطہ کے ذریعے تائیوان سمجھوتے پر رضامندی کامظاہرہ کیاہے۔ اس کامطلب یہی ہے کہ واشنگٹن چین کی ’ون چائناپالیسی‘ کو مانتارہے گاجس میں وہ تائیوان کے بجائے چین کو ہی اہمیت دیتارہے گا۔ واشنگٹن کے تائیوان کے ساتھ ہوئے سمجھوتے کے تحت امریکہ تائیوان کو اُس کی سالمیت کیلئے اسلحہ فراہم کرانا بھی جاری رکھے گا۔ اتنا ہی نہیں امریکہ تائیوان کو اُس کے حال پر بھی نہیں چھوڑنے والاہے۔ امریکہ کے قومی سلامتی صلاح کار جیک سلون نے ایسی امریکہ کی خواہش حال میں پھر سے دہرائی ہے ۔ سلون نے کچھ دن قبل کہا کہ تائیوان آبی راستہ میں امن اوراستحکام کو چیلنج پیش کرنے والی کسی بھی کارروائی کی امریکہ نہ صرف سخت مخالفت کرے گا بلکہ اُسے معقول جواب بھی دے گا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اورچین کے مابین تعلق اُن کی بڑھتی ہوئی جنگی حکمت عملی سے متعلق مقابلہ کی بنیاد پر ہی فروغ پارہاہے ۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ بنیادی سفارتی جڑاؤ کی کڑیاںبھی مشکل سے ہی جڑپارہی ہیں۔ اس کااندازہ اسی سے لگایاجاسکتا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ براہ راست دوطرفہ میٹنگ چاہتے تھے لیکن چینی صدر نے اس پر کوئی گرم جوشی نہیں دِکھائی اوریہی اشارہ دیا کہ ایسی کسی بھی میٹنگ سے قبل رشتوں کی نوعیت میں اصلاح ضروری ہے۔ وہیںواشنگٹن نے ہند- بحرالکاہل علاقے میں اپنی پالیسی کو دوطرفہ موڑدیاہے ۔ جہاں بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے چھ ماہ کے اندر ہی ’کواڈ ‘لیڈران کی دوچوٹی میٹنگ منعقد کی ہے وہیں پچھلے مہینے’ آکس‘ جیسے نئے سہ فریقی پلیٹ فارم کا اعلان بھی کیا۔ یہ سب کرکے امریکہ اس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ ہند-بحرالکاہل علاقے کو لیکر اُس کا رویہ کھلا اوربشمول ہے۔ بیجنگ اُسے چین کو کنٹرول کرنے والی قواعدوں کی شکل میں دیکھتاہے ۔
جوبھی ہو امریکہ اورچین کے رشتوں میں تائیوان ایک اہم کڑی ثابت ہونے جارہاہے۔ افغانستان سے یکایک نکلنے کے بعد یہ ہند-بحرالکاہل علاقہ میں امریکہ کیلئے وقار اوراعتبار کا سوال اکبر بن گیاہے۔ ادھریہ چین کی دہائیوں پرانی قومی اتحاد کا خواب اور شی چن فنگ کے قومی رد وبدل کے منصوبہ کا اہم پڑاؤہے۔ اِن دونوںطاقتوں کے خلاف تائیوان کیلئے یہ اس کے جمہوری اقدار اور طرز زندگی کی سالمیت کا سوال ہے۔ تاریخی اورہم معاصرجنگی حکمت عملی کی یہ دھارائیں آج کے کھل رہے واقعات کے کارواںمیں بڑی طاقتوں کی کارروائی اورردعمل کی نوعیت طے کریں گی۔ اِس کے نتیجے نہ صرف اس علاقہ کیلئے بہت سنجیدہ ہوسکتے ہیں بلکہ نئی شکل اختیار کرکے عالمی ڈھانچے پر بھی اِس کا اثر پڑے گا۔