گرلز نائٹ اِن: برطانیہ کے نائٹ کلبوں میں سپائکنگ کے بڑھتے واقعات
لندن،اکتوبر۔برطانیہ کے نائٹ کلبوں میں سپائکنگ یعنی مشروبات میں نشہ آور مواد ملانے یا قریب سے گزرتے لوگوں کو سوئیاں چبھونے کے واقعات میں اضافے کے بعد نائٹ کلب لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔یہ بات اسی شعبے سے متعلق ایک تنظیم کے سبراہ نے کہی ہے۔ویلز بھر میں مقامی پولیس ستمبر اور اکتوبر کے دوران لوگوں کو سوئیاں چبھونے یا انجیکشن لگانے کے 11 مشتبہ معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے۔جمعے کے روز کارڈیف سمیت متعدد مقامات پر گرلز نائٹ اِن نامی ایک گروپ کلبوں کے بائیکاٹ کی قیادت کر رہا ہے تاکہ اس مسئلے کو مزید سنجیدگی سے لینے کے مطالبے کو اجاگر کیا جائے۔کچھ خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اب کلبوں میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں۔ نائٹ ٹائم انڈسٹریز ایسوسی ایشن (این ٹی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹیو مائیکل کِل نے کہا کہ ایسے مقامات کو اچھے نظم و ضبط کے ساتھ چلایا جا رہا تھا لیکن ان کی تنظیم حکومت کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سکیمیں متعارف کرانے کے لیے کام کر رہی ہے۔لیبر پارٹی سے کارڈف نارتھ کی رکن پارلیمان اینا میک مورین، نے کلبوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین کو ان پر بد نیتی سے کیے جانے والے حملوں سے محفوظ رکھیں۔کارڈف کی ایک 19 سالہ طالبہ جیزمین پارکر کو یہ جان کر جھٹکا لگا کہ ان کے جاننے والے کتنے لوگوں کو اسپائک کیا گیا ہے – وہ اپنے دوستوں کے چار کے گروپ میں سے ایک ہیں۔اس کے متعلق سوشل میڈیا پر جو توجہ حاصل ہو رہی ہے وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ انھوں نے کہا: میں نے کچھ دنوں کے لیے انسٹاگرام کو حذف کر دیا کیونکہ وہاں بہت ہلچل تھی۔ یہ ایک نعمت اور مسئلہ دونوں ہے، کیونکہ کچھ لوگ اس پر خوفزدہ کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ بیداری پھیلانا بہت ضروری ہے اور یہاں اس کی تردید بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ایک طالب علم کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کچھ لوگ جو سپائک کرتے ہیں وہ مڈ ویک سٹوڈنٹ نائٹ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ لوگ اس دوران زیادہ چوکس نہیں رہتے۔ انھوں نے کہا: یہ ایک بہت زیادہ خوفزدہ کرنے والی بات ہے اور یہ لوگوں کو باہر جانے سے روکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ گھروں میں پارٹیوں کو ترجیح دینے لگے ہیں کیونکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔جازمین کو امید ہے کہ بائیکاٹ سے کلب اس کے متعلق کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ انھوں نے مزید کہا: سپائکنگ ہمیشہ سے رہی ہے لیکن کلب واقعتاً اپنے طریقے نہیں بدل رہے ہیں۔ اگر انتظامات موجود ہوں تو لوگ کلبوں میں محفوظ رہنے کے لیے زیادہ قیمت ادا کریں گے۔ گریجویشن کی تیسرے سال کی طالبہ الیسا (فرضی نام) نے کہا کہ سپائکنگ میں اضافہ ہوا ہے اور یہ وبائی مرض سے پہلے کے مقابلے میں 100 فیصد زیادہ ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہاں محفوظ محسوس نہیں ہوتا اور ایسا لگتا ہے کہ سب لوگ ایک ہی مقصد کے تحت وہاں نہیں جاتے ہیں۔ کلب میں جانا بہت اچھا لگتا تھا، خود سے ٹہلتے ہوئے گھر آنا اچھا لگتا تھا اور اب اکیلے کلب بیت الخلا تک نہیں جا سکتی۔ پتا نہیں کہ کیا بدلا ہے لیکن کچھ تو ضرور بدلا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے دوستوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کیں ہیں جیسے کہ وہ اپنے مشروبات کو ڈھانپ لیتے ہیں، لیکن یہ ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں۔انھوں نے کہا کہ کوئی چیز چبھو دیے جانے کے خوف کے ساتھ یہ خوف بھی رہتا ہے کہ اس کو کیسے روکا جائے۔ میں اپنے دوستوں کی دیکھ بھال کیسے کروں؟ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے اگر میں کلب نہ جاؤں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ الیسا کا خیال ہے کہ بائیکاٹ صرف اس صورت میں موثر ہوگا جب کلب اس کو تسلیم کرتے ہیں اور ان جن لوگوں کے ساتھ یہ سپائکنگ والا واقعہ پیش آیا ہے ان کے سر سے الزام کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ وہ ان لوگوں کو بھی سبق دینا چاہتی ہیں جنھوں نے یہ کیا اور ان اداروں کو بھی جنھوں نے اس کی اجازت دی۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام کلبوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ساتھ بند ہونا چاہیے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ انھوں نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے، اور اپنے عملے کو تربیت دینے کے لیے پرعزم ہیں۔سوانسی اور کارڈیف میں فکشن اور پرزم نائٹ کلب کے ڈائریکٹر گریم ڈا سلوا نے کہا کہ سپائکنگ ہمارے مہمانوں کے لیے ایک حقیقی خوف ہے اور ہم کسی بھی رپورٹ کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ مسٹر ڈا سلوا نے کہا کہ فریشرز سماجی طور پر اپنے قدم رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور جب پارٹی کرنے اور میل جول بڑھانے کی بات آتی ہے تو وہ اپنی حدود سیکھ رہے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سال کے اس وقت بعض اوقات سپائکنگ کی رپورٹس میں اضافہ نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ پولیس کے اعداد و شمار تعداد میں اضافے کے عکاس ہوں لیکن یہ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اب تیز رفتاری کے ساتھ ممکنہ خطرات کے بارے میں زیادہ آگاہی ہے اور اس کی وجہ سے کارروائی کرنے کے معاملے میں حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ عملے کو تربیت دی گئی ہے، آسک انجیلا جیسی اسکیمیں دستیاب ہیں اور ان کے مقامات پر سپائکنگ کے مخالف طریقوں پر عمل کیا جا رہا ہے، جیسے ڈرنک کور فراہم کیے گئے جا رہے ہیں، سکیورٹی کے طور پر تلاشی، میٹل ڈیٹیکٹر اور سی سی ٹی وی اور باڈی کیمز کا استعمال ہو رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا: ہم اس جمعہ کو اپنے طلبا شراکت داروں کے ساتھ رات کے وقت کم قیمت والی خدمات میں حفاظت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنی حمایت ظاہر کرنا چاہیں گے۔ آئیے مل کر کام کریں تاکہ اس کو ختم کیا جا سکے۔ مسٹر کِل نے کہا کہ آپریٹرز لوگوں کو خاص طور پر رات کے وقت خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ ہماری صنعت کو اچھی طرح سے منظم کیا گیا ہے، اور ہمارے پاس لائسینسنگ کے سخت ضوابط ہیں جن میں عوامی تحفظ شامل ہے۔ ہوم آفس کی طرف سے رات کے وقت خواتین کی حفاظت کے فنڈ میں حکومتی تعاون کے ساتھ، ہم آنے والے ہفتوں میں برطانیہ بھر میں شروع کی جانے والی اسکیمیں دیکھیں گے، جو تعلیم، مواصلات اور تحفظ کے حوالے سے اقدامات کو پھیلانے پر کام کریں گی۔ ہماری صنعت اپنے صارفین اور عملے کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہے، اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ پولیس کے ذریعے 11 مشتبہ کیسوں کی تفتیش کی جا رہی ہے، جن میں سے اب تک نو کی رپورٹ ساؤتھ ویلز پولیس کو دی گئی ہے۔پولیس نے کہا کہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے پن چبھنے یا درد یا بازو کے نشان کا سامنا کیا ہے۔اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل جینی گلمر نے کہا کہ عملہ عوامی تشویش سے آگاہ ہے اور لائسنس والے کلب کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ انھیں تیز رفتاری کے ساتھ کسی ایسے واقعے سے آگاہ کیا جا سکے۔انھوں نے مزید کہا: ’ہم تمام رپورٹس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں اور ہر اس شخص کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جو یہ مانے کہ وہ کسی بھی شکل میں سپائکنگ کا شکار ہوئے ہیں کہ ہم سے رابطہ کریں۔ ڈافیڈ پاویز پولیس کو مزید دو کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں۔ گوینٹ پولیس اور نارتھ ویلز پولیس نے کہا کہ انھیں ایسی کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔