روس کا ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے پر انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں؟
لندن،اکتوبر۔روس انڈیا کا روایتی اتحادی رہا ہے۔ سوویت یونین کے وقت سے ہی انڈیا اور روس کے درمیان اعتماد کا ایک رشتہ ہے۔ مگر دوسری طرف امریکہ اور انڈیا کے درمیان سکیورٹی شراکت داری گذشتہ 15 برسوں کے دوران بڑھی ہے۔لیکن کیا انڈیا دونوں ملکوں کے ساتھ مساوی تعلقات برقرار رکھ سکے گا کیونکہ روس اور امریکہ کے درمیان رقابت سوویت دور سے چلی آ رہی ہے۔فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے انڈیا اب بھی اپنا 80 فیصد سے زیادہ سامان روس سے خریدتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اسرائیل اور امریکہ بھی انڈیا کے دفاعی شراکت دار بن کر اْبھرے ہیں۔ یہ روس کے لیے تکلیف دہ ہو گا۔حال ہی میں روس نے اس وقت سخت اعتراضات اٹھائے جب انڈیا نے بحر ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ بلاک میں شمولیت اختیار کی۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ ’مغرب ایک یک قطبی دنیا کو بحال کرنا چاہتا ہے لیکن روس اور چین کے اس کے تابع ہونے کے امکانات کم ہیں۔ انڈیا اب بھی مغربی ممالک کی چین مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے جیسا کہ انڈو پیسیفک میں نام نہاد ’کواڈ‘ اتحاد۔‘روس کے اس بیان سے سمجھا جا سکتا ہے کہ انڈیا کی امریکہ سے بڑھتی قربت اسے پریشان کر سکتی ہے۔دوسری طرف امریکہ نے انڈیا کے روس کے ساتھ ایس 400 میزائل سسٹم کے معاہدے پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ انڈیا کے دورے پر آنے والی امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے روس کے ساتھ ہونے والے اس معاہدے کو خطرناک قرار دیا۔امریکہ نے اس دفاعی معاہدے پر ترکی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہی خطرہ انڈیا کو بھی ہے۔ وینڈی شرمن نے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں فریق اس مسئلے کو حل کریں گے۔خبروںکے مطابق وینڈی شرمن نے کہا کہ ’کسی بھی ملک جس نے ایس 400 استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، ان کے بارے میں ہماری پالیسی واضح ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ خطرناک ہے اور کسی کے سکیورٹی مفاد میں نہیں۔ ہم انڈیا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مسئلہ بھی بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے گا۔‘انگریزی اخبار دی ہندو کے مطابق شرمن نے یہ مسئلہ انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے سامنے بھی اٹھایا۔اس کے علاوہ انھوں نے انڈیا کے سیکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا سے بھی اس معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔وینڈی شرمن کا یہ تبصرہ انڈین فضائیہ کے سربراہ وی آر چودھری کی جانب سے اس تصدیق کے بعد آیا کہ 5.43 ارب ڈالر کے ایس 400 میزائل سسٹم کا معاہدہ 2018 میں طے پایا تھا اور اس سال کے آخر تک فوج کی جانب سے پہلی بار اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔امریکہ نے اس معاہدے کے بارے میں ہمیشہ سخت مؤقف رکھا ہے لیکن امریکہ نے ایسا صرف انڈیا کے ساتھ نہیں بلکہ ترکی کے ساتھ بھی کیا بلکہ امریکہ نے ترکی کے ساتھ زیادہ سخت مؤقف اختیار کیا۔سنہ 2019 میں اسی وجہ سے امریکہ نے ترکی کے ساتھ ایف 35 لڑاکا طیاروں کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ترکی پر سفری اور اقتصادی پابندیاں بھی عائد کیں۔ اب روس کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے انڈیا کو بھی امریکی پابندیوں کا خطرہ ہے۔تاہم ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ باہمی تعلقات کا فیصلہ خود نہیں کر سکتا۔صدر اردوغان روس سے ایس 400 کی دوسری کھیپ خریدنے کے لیے پْرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ اردوغان روس سے مزید ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور یہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے پریشان کن ہے۔تاہم ابھی تک انڈیا کی جانب سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔سنہ 2018 میں انڈیا نے روس سے پانچ ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا۔ایس 400 روس کا جدید ترین میزائل سسٹم ہے۔ اس کا موازنہ امریکہ کے بہترین فضائی دفاعی نظام پیٹریاٹ میزائل سے کیا جاتا ہے۔یہ وہی میزائل سسٹم ہے جس کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے دسمبر 2020 میں ترکی پر کوئی معاہدہ کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب انڈیا کی باری ہے۔اگر امریکہ پابندیاں عائد کرتا ہے تو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے۔ امریکہ کی مہم کو بھی ایک دھچکا لگنے کی بات ہو رہی ہے، جس میں انڈیا کو چین کی مشکل سے نمٹنے کے لیے ایک اتحادی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ظاہر ہے کہ پابندی انڈیا کی وجہ سے نہیں بلکہ روس کی وجہ سے ہے۔’امریکہ کے مخالفین سے پابندیوں کے ذریعے نمٹنے کا قانون‘ یعنی سی اے اے ٹی ایس اے 2017 میں منظور کیا گیا تھا تاکہ روس کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی سزا دی جا سکے۔اس کے تحت روس سے فوجی ساز و سامان خریدنے والے کسی بھی ملک پر پابندی لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا پر پابندی عائد کی تو یہ امریکہ کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔سڈنی میں سینٹر فار انڈیپینڈنٹ سٹڈیز کے سکالر سالواتور بابونز نے رواں سال 16 فروری کو امریکی میگزین فارن پالیسی میں لکھا کہ امریکہ کو انڈیا کے معاہدے کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔سالواتور بابونز نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کو انڈیا کی زیادہ ضرورت ہو گی۔ امریکہ انڈیا کے لیے ایک اہم دفاعی شراکت دار ہے لیکن زیادہ قابل اعتماد نہیں۔ دوسری طرف اس علاقے میں انڈیا امریکہ کا واحد دوست ہے، جو امریکہ کے لیے چین کو چیلنج دے سکتا ہے۔‘روس کے ساتھ انڈیا کا دفاعی معاہدہ ایس 400 تک محدود نہیں بلکہ اس کی فہرست بہت طویل ہے۔ انڈیا سوویت یونین کے وقت سے ہتھیاروں کے سودے کرتا رہا ہے۔انڈین فضائیہ روس کے مگ 29 اور سخوئی 30 اڑاتی ہے۔ انڈین بحریہ کے پاس روسی جیٹ اور جہاز بھی ہیں۔ انڈیا نے روس سے جوہری آبدوزیں بھی منگوائی ہیں۔انڈیا روس کے ساتھ معاہدے کرتا ہے کیونکہ روس ایک قابل اعتماد تجارتی سپلائر ہے اور اس کے سامان کا معیار بہت اچھا ہے۔ انڈیا اب فرانس، اسرائیل اور امریکہ سے فوجی ساز و سامان بھی خرید رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا سی اے اے ٹی ایس اے کی وجہ سے روس کے ساتھ دفاعی تعاون ختم نہیں کر سکتا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایس 400 سے نہ تو امریکہ اور نہ ہی اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہے۔انڈیا روس کے لیے فوجی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق روس نے 2010 سے 2019 تک اپنے ہتھیاروں کی برآمد کا ایک تہائی حصہ انڈیا کو فروخت کیا۔پہلے چین بڑا خریدار تھا لیکن اب وہ اپنی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں مصروف ہے۔ چین اور روس کے درمیان دفاعی معاہدہ سنہ 2019 میں اس متاثر ہوا جب روس نے کہا کہ چین اس کی ٹیکنالوجی چوری کر رہا ہے۔تب سے روس چین کے ساتھ دفاعی معاہدے کے بارے میں ہچکچا رہا ہے۔