ڈاکٹر رادھا کرشنن، یوم اساتذہ اور موجودہ ہندوستان

ذکی نور عظیم ندوی
5 ستمبر ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی تاریخ پیدائش ہے، جو ایک مشہور اور فعال سیاست داں، ممتاز ماہر تعلیم ، عظیم مفکر،فلسفی اور آزاد ہندوستان کے۱۹۵۲ تا ۱۹۶۲ء دوسرے نائب صدر اور پھر۱۹۶۲تا ۱۹۶۷ء دوسرے صدر جمہوریہ بھی رہے ، آزادی ملک کے بعد انہیں بھارت رتن کا اعزازبھی دیا گیا ، ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا جو کسی ایک موضوع و فن تک محدود نہ تھا بلکہ وہ مختلف علوم و فنون میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، حالانکہ ان کو سب سے زیادہ دلچسپی مذاہب کے تقابلی مطالعہ سے تھا اور وہ مشرقی و مغربی افکار کے مطالعے و تجزیے میں خاص مقام رکھتے تھے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن فن تدریس کو بہت عظیم اور مؤثر پیشہ مانتے تھے اور اسی لئے اپنی زندگی میں اس پیشہ سے منسلک رہنا باعث فخر سمجھتے اور بہ حیثیت ایک مدرس کئی عظیم تعلیمی عہدوں پر فائز رہے ۱۹۲۱تا ۱۹۳۲ء کنگ جارج پنجم چئیر آف مینٹل اینڈ مورل سائنسس، کلکتہ یونیورسٹی سے منسلک رہے۔ نیز ۱۹۳۶ تا ۱۹۵۲ء آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشرقی ادیان اور شعبہ اخلاقیات کے پروفیسر بھی رہے۔ اپنے افکار و نظریات او رکثرت مطالعہ سے حاصل شدہ معلومات اور اس کے نچوڑ کو پیش کرنے کے لئے تصنیف و تالیف کے میدان کا بھی انتخاب کیا اور اس میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا ،ان کی تصنیفات میں ’’ معاصر دنیا میں مذہب کی افادیت ‘‘ اہم حیثیت رکھتی ہے جس کا انگریزی عنوان The regin of religion in contemporary philosophy ہے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن کوعالمی، ملکی، سیاسی، سماجی اور علمی طور پر جو مقام و مرتبہ حاصل تھا وہ بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کو فن تدریس سے خصوصی لگاؤ تھا اور اسے اپنے لئے سب سے زیادہ قابل فخر اور قوم و ملک کی رہنمائی اور ترقی کے لئے سب سے زیادہ مؤثر اور مفید تصور کرتے تھے اور غالباً اسی وجہ سے جب صدر ہونے کے بعد ان کے کچھ شاگردوں اور دوستوں نے ان سے ان کی یوم پیدائش منانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے جوابا لکھا؛’’میرے یوم پیدائش منانے کے بجائے اگر 5 ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جائے تو مجھے زیادہ فخر ہوگا‘‘ اور اسی دن سے رادھاکرشنن کا یوم پیدائش پورے ملک میں ’’یوم اساتذہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ، اس سلسلے میں تقریبات کے انعقاد ہوتے ہیں۔ طلبہ اس دن اساتذہ کو گلدستے اور تحائف پیش کرتے ہیں ،جبکہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو خصوصی انعامات دیے جاتے ہیں۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فن تدریس ہر زمانہ میں سب سے قابل احترام اور عظیم پیشہ رہا ہے۔ یہ ملک وقوم کی ترقی، وہاں کی معاشی و سماجی بہتری، وہاں امن و سکون، اپنے فرائض کی انجام دہی، اس کی یاد دہانی اور رہنمائی میں جو کردار ادا کر سکتا ہے وہ کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں۔اسی لئے اساتذہ کا کردار کسی بھی سماج کی تعمیر وترقی میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ اساتذہ کا انتخاب اور پھر ان کے فرائض کی انجام دہی میں تمام ضروری امور کی رعایت،اپنے موضوع کی مکمل صحیح اور دقیق معلومات، تدریس کے لئے مطلوبہ صلاحیت، فن تدریس اور ابلاغ و ترسیل میں مہارت اور طلبہ کے سامنے استاد کا اپنے آپ کو اعلی اخلاق اور اسلوب کے ذریعہ ایک قابل تقلید نمونہ کے طور پر پیش کرنا اس کی افادیت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ استاد کا مقام ومرتبہ انسان کی زندگی میں، قوموں کی ترقی و بقا میں بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ قوم کے مستقبل اور اور اس کے معماریعنی آج کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ ملک وقوم کے ہر فرد کو علم کی،اور علم حاصل کرنے والوں کو استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ استاد پر نئی نسل کی ترقی، معاشرہ کی فلاح و بہبود اور افرادکی تربیت سازی کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے ایک استاد اور اس کی تربیت کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ استاد ہی قوم کے نوجوانوں کو علوم و فنون سے آراستہ پیراستہ کرتا اور اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ مستقبل میں ملک و قوم کی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔ استاد جہاں نوجوانوں کی اخلاقی وروحانی تربیت کرتا ہے وہیں ان میں مختلف مہارتوں اور صلاحیتوں کا اندازہ لگاکر ان کے اندر ضروری معلومات اور اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا استاد وہ چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی دکھاتا ہے۔ وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن ومحبت ا ور دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔ وہ عظیم رہنما ہے جو آدمیوں کو حقیقی انسان بناتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے جو فرش سے عرش کی بلندیوں پر پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی ادھوری ہے۔اس لئے ۵؍ستمبر کو سابق صدر جمہوریہ سروپلی رادھا کرشنن کی یاد میں یوم اساتذہ منانے کے ساتھ ساتھ تمام لوگوں خاص طور پر حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اساتذہ کے انتخاب میں شفافیت کو ملحوظ رکھیں۔ اہل حضرات کو خدمت کا موقع ضرور دیں۔ اور نا اہلوں کے انتخاب کے ذریعہ طلباء اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر و ترقی سے کھلواڑ کرنے سے بچیں اسی طرح اساتذہ کو تمام ضروری سہولتیں مہیا کرائی جائیںا ور سماج میں ان کی عزت و احترام اور وقار و عظمت کو پیش نظر رکھ کر ماحول میں ضروری تبدیلیاں کی جائیں۔خاص طور رپر پرائمری اور سکنڈری تعلیم پر اور وہاں اساتذہ کے انتخاب اور ان کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اور اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کے تعین کا ایک مکمل نظام ہے اور ان کی تنخواہوں کا معیار بھی دوسروں کے لئے قابل رشک ہے، اس کے باوجود بھی سرکاری اسکول اور کالجوں کا تعلیمی معیار باعث تشویش ہے اور تعلیم کے سلسلہ میں سنجید ہ افراد اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے ان پرائیویٹ اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں تنخواہ بھی نسبتا ًکم اور سہولتیں بھی قابل تشویش حد تک نہ کے برابر ہیں۔ اسی طرح انھیںتدریس میں زیادہ وقت بھی دینا پڑتا ہے اور زیادہ مضامین کی تدریس کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے پھر بھی وہاں کا نتیجہ اور اس کی طرف لوگوں کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ چیز ان سرکاری اسکول اور کالجوں اور ان کے ذمہ دار و اساتذہ کے لئے قابل توجہ ہونی چاہئے جو سرکاری سہولتوں اور بڑی تنخواہوں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح یوم اساتذہ کے اس موقع پر سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کی تعلیمی و عملی زندگی پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کس طرح ان کا تعلیمی سفر ان کی عملی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا رہاجس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اعلٰی تعلیمی اقدار کی باتیں کرتے تھے اور عوام کے اخلاق و اقدار کی اصلاح سے غافل نہیں ہوئے ،جس کی ایک اہم مثال وہ تاریخی واقعہ ہے کہ جب ان کے سامنے نرگس دت کو راجیہ سبھا کی رکنیت دینے کی تجویز پیش کی گئی تو انہوں نے اس پر فوراً یہ اعتراض جتایا کہ اس اقدام سے نوجوانوں کے اخلاق بری طرح سے متاثر ہوں گے۔ یہ اعتراض جدید بھارتی سیاسی دور سے مختلف ہے جس میں نرگس دت جیسی بیشمار شخصیات کو پارلیمان کے کسی نہ کسی ایوان کا حصہ صرف اس لئے بنایا جاتا ہے کہ عوام تک رسائی آسان ہو اور پارٹی اپنی مقبولیت کے بجائے اس شخصیت کی مقبولیت کے ذریعہ عوام تک پہنچنے اور کامیابی حاصل کرنے کی امید رکھے۔ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یاد میں پورے ملک میں جس جوش و خروش کے ساتھ یوم اساتذہ منایا جاتا ہے اس موقع پر ملک کے موجود فرقہ وارانہ ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی اس فکر اور سوچ کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے جس کو ڈاکٹر رادھا کرشنن کی حالات زندگی میں وکی پیڈیا میں بھی صراحت سے بیان کیا گیا ہے (CADIndia”.cadindia.clpr.org.in ۲۰؍مارچ2018.)کہ وہ ایسی تنظیموں کے خلاف تھے جو مذہب کے نام پر تقسیم کاباعث بنیں ،کیونکہ ان کے نزدیک ایسی تنظیموں کی تشکیل اور ان کی سرگرمیاں ملک کے امن و سکون، اس کی ترقی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، آپسی پیار و محبت ہی نہیں بلکہ ملکی نظام اور خاص طور پر وہاں رائج سیکولرزم کی روح کو مجروح کرنے کا ذریعہ ہے۔

 

Related Articles