ممتاحکومت کی اقلیت نواز ی سے مسلمان کیوں پریشان ہیں؟
ہر حکومت کا نظم ونسق کے قیام کے ساتھ شہریوں کی تعلیم اور صحت کا خیال رکھے۔جب حکومت اپنے اس فرض سے لا پرواہ ہوتی ہے تو کمزور اور پسماندہ فرقہ کے خیر خواہ اہل خیر کے تعاون اور مدد سے تعلیمی ادارہ یا مرکز صحت وشفا قائم کر تے ہیں۔ کلکتہ میں تیس پینتیس سال پہلے کلکتہ کے مسلمانوں نے مل جل کر ملی الا مین گرلز کالج نام کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ اس وقت کی مارکسی حکومت نے بھی کالج کوجب تمام کوششوں کے باوجود اقلیتی کردار دینے سے انکار کر دیا تو قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ National Commission for Minority Educational Institution نے کالج کو اقلیتی کردار فراہم کیا۔ یہ کمیشن منموہن حکومت نے 2004 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کیا اور 2005 میں اس کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے ایکٹ بنا۔ اس طرح اس کمیشن کو حق دیا گیا کہ وہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو اقلیتی کردار فراہم کرے‘ جب ریاستی حکومتیں حق دینے سے انکار کر یں۔ اس وقت مارکسی حکومت تھی اس نے اسے طوعاً و کرہاً تسلیم کرلیا ۔ممتا حکومت کا دور 2011 سے شروع ہوا اس حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ جو مسجد سالٹ لیک کے سیکٹر چار میں آرمڈ پولیس بٹالین چھہ میں تعمیر ہورہی تھی اسے کروادیا اس کے ستون مرثیہ خواں ہیں۔ خاکسار نے تین پولیس کمشنر وں جو آئے گئے سے ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ سے کہا‘ فرہاد حکیم سے بھی اپیل کی ۔مکل رائے سے بھی بات ہوئی مگر مسجد کے ستونوں سے آگے کام نوسال میں نہ بڑھ سکا۔ مدارس کاحال جیسے تھا اس سے بھی براہے۔ کئی مدرس اور ٹیچر ہڑتال میں جان بحق ہوچکے پھر بھی ان کی مانگ پوری نہ ہوئی۔ یونانی میڈیکل کالج اور اسپتال کا ذکر فیس بک میں پڑھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ایک فیصد بھی اس کے لئے کام کر نا نہیں چاہتی ہے ۔ مارکسی حکومت نے اس کے لیے ایکٹ بنا دیا ہے نوے فیصد کام بھی کر دیا ہے۔ ممتاحکومت سے ادارے والے ناک رگڑتے رہے ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ملی کالج کے اقلیتی کردار کے درجے سے اسے دیدی کی ’ اقلیت نواز‘حکومت نے محروم کر دیا ۔ محترمہ ممتابنرجی بنرجی نے سلطان احمد مرحوم سے وعدہ کیا کہ بیساکھی اور زرینہ کوکالج میں ٹیچر کی حیثیت سے بحال کردو۔ موصوف فوراً اپنے لیڈر یا باس کی بات کونہ صرف تسلیم کیا بلکہ عملی جامہ پہنا دیا۔ ممتا کا وعدہ وعدہ فردا ثابت ہوا۔ سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ کر دیا کہ قومی کمیشن کو اقلیتی کردار دینے کاقانوناً حق ہے ۔ جب بھی اقلیت نواز حکومت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ دوسال پہلے خاکسار نے ممتابنرجی کی ایما پر وزیر تعلیم پار تھو چٹرجی سے ملاقات کی ۔انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے کی ملاقات میں صاف انکار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی انہیں منظور نہیں کسی قیمت پر وہ ملی کالج کو اقلیتی کردار نہیں دیںگے۔ اس وقت تیس لڑکیوں کو پہلی اکتوبر کو امتحان دینا ہے۔ حکومت اور وزیر تعلیم امتحان میں رکاوٹ کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔آخر تیس طالبات کے مستقبل سے ممتا حکومت کیوں کھلواڑ کر رہی ہے کیا اردو اکیڈمی کے سیمینار اور وقف بورڈ کی طرف سے اماموں کودوڈھائی ہزار روپئے دینے سے ترنمول کانگریس کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کو مغربی بنگال کے مسلمان نظر انداز کر دیںگے؟