روسی فوج یوکرین کی دلدل میں
مگر صدرپوتین اپنے ’اعلیٰ ہتھیار‘ برآمد کرنے کے خواہاں
کییف/ماسکواگست۔صدر ولادی میرپوتین نے پیر کے روز کہا کہ روس عالمی سطح پراپنے اتحادیوں کو جدید ہتھیاروں کی فروخت اورفوجی ٹیکنالوجی کی ترقی میں تعاون کے لیے تیار ہے جبکہ خود روسی فوج یوکرین کی جنگی دلدل میں گذشتہ چھے ماہ سے پھنسی ہوئی ہے اور اس نے توقع سے بھی زیادہ بدترکارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔یوکرین کے دوبڑے شہروں سے روسی فوج کو ہزیمت کے بعد پسپائی اختیار کرناپڑی ہے اور مشرقی صوبوں میں اسے بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔سست رفتاری سے پیش قدمی کے بعد یہ جنگ اب تک روس کی اسلحے کی صنعت کی ناقابل یقین نمائش ثابت ہوئی ہے۔لیکن صدر ولادی میر پوتین نے ماسکو کے باہر ہتھیاروں کے ایک شو سے خطاب کرتے ہوئے اصرار کیا کہ روسی ہتھیار مقابلے سے کئی سال آگے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’’روس لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقاکے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کوپسند کرتا ہے اور وہاں اتحادیوں کو چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر بکتربند گاڑیوں، توپ خانے، جنگی طیاروں اور ڈرونز تک ہتھیارمہیا کرنیکے لیے تیار ہے۔ ان میں سے تقریبا سبھی کو حقیقی جنگی کارروائیوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال کیا گیا ہے‘‘۔انھوں نے کہا کہ روس کی پیش کش میں اعلیٰ درست ہتھیار اور روبوٹکس شامل ہیں۔ان میں سے بہت سے اپنے مقابلے کے غیرملکی ہتھیاروں سے کئی سال یا کئی دہائیاں آگے ہیں اور حکمت عملی اور تکنیکی خصوصیات کے لحاظ سے وہ ان سے نمایاں طورپر برترہیں۔روس امریکا کے بعد دنیا میں اسلحہ کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔ وہ سالانہ قریباً 15ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرتا ہے اوریہ عالمی برآمدی مارکیٹ کا تقریبا پانچواں حصہ ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2017-2021 تک روسی ہتھیاروں کی فروخت کا 73 فی صد صرف چار ممالک بھارت، چین، مصر اور الجزائر میں گیا ہے۔
’ناقص اشتہار‘:بعض مغربی فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس کی اپنی فوج کے حجم کے مقابلے میں یوکرین ایسے بہت چھوٹے حریف کے خلاف جدوجہد صدر پوتین کی اسلحہ فروخت کی پچ کو کمزور کر سکتی ہے۔کنگز کالج لندن میں ڈیپارٹمنٹ آف واراسٹڈیز کی سینئر لیکچرر رتھ ڈیرمونڈ نے کہا کہ مغرب کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے خاتمے کے بعد روس اسلحے کی تجارت پر پہلے سے بھی زیادہ انحصار کررہا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پوتین زیادہ سے زیادہ غیر مغربی صارفین کو اسلحہ فروخت کرنے کے خواہش مند ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ روسی فوج کی ساکھ کے لیے تباہی کا باعث رہی ہے- روسی فوج کی ملکی ساختہ ہتھیاروں کے ساتھ کارکردگی ’انتہائی ناقص اشتہار‘ رہی ہے۔یوکرین میں کون سے روسی ہتھیاروں کے نظام نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں ریٹائرڈ امریکی جنرل بین ہوجز نے امریکی دفاعی حکام کی تشخیص وجانچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ روس اپنے ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے والے گائیڈڈ میزائلوں کی ناکامی کی شرح 60 فی صد تک برداشت کررہا ہے۔یورپ میں امریکی افواج کے سابق کمانڈر ہوجز نے مزید کہا کہ روس کے خلاف عاید مغربی پابندیوں نے اس کے فاضل پرزہ جات کے حصول اوراس کے فروخت ہونے والے ہتھیاروں کی دیکھ بھال کی صلاحیت کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں۔انھوں نے کہاکہ میں ایک متوقع خریدارکی حیثیت سے آلات کے معیاراور روسی فیڈریشن کی اسلحہ کی صنعت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے بارے میں بہت فکرمندہوں گا۔یوکرین نے امریکا کی جانب سے مہیاکردہ ہتھیاروں خصوصاً ہائی موبیلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (ہیمارس) کا مؤثراستعمال کیا ہے اور روس کوکئی بڑے جھٹکے لگائے ہیں۔ سیٹلائٹ تصاویرکے مطابق ان میں گذشتہ ہفتے روس کے زیر قبضہ جزیرہ نما کریمیا کے ایک ایئر بیس پر دھماکے بھی شامل ہیں۔ان کے نتیجے میں زمین پر کم سے کم آٹھ طیارے تباہ ہوئے تھے۔اس کے باوجود پوتین نے کہا کہ یوکرین کے مشرقی خطے ڈونبس میں روس اوراس کے آلہ کاروں کی افواج اپنے تمام کاموں کو پورا کررہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ قدم بہ قدم ڈونبس کی سرزمین کو آزاد کر رہے ہیں۔