حکومت نے کلین ائر زون چارجز متعارف کرانے پر مجبور نہیں کیا، اینڈی برنہم
بولٹن ،جولائی۔ گریٹر مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہم نے اعتراف کیا ہے کہ انہیں حکومت نے ریڈیو پر کال کرنے والے کے ساتھ گرما گرم بات چیت کے تبادلے کے دوران کلین ائر زون چارجز متعارف کرانے پر مجبور نہیں کیا۔گریٹر مانچسٹر کے میئر نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے مؤثر طریقے سے شہر کے علاقے کو سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز کو چارج کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کلین ائر زون جو گزشتہ ماہ نافذ ہونے والی اسکیمز میں شامل تھی مگر فی الحال مقامی رہنماؤں کے ساتھ زیرِ بحث ہے جو تمام الزامات ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، یہ مطالبات عوامی ردعمل کے بعد سامنے آئے ہیں جس کے باعث حکومت نے ڈیڈ لائن میں تاخیر کی اور اب کونسلز کو یہ کہا جا رہا ہیکہ آلودگی کی سطح کو دو سال تک قانونی حدود سے نیچے لانا ہوگا، جب کہ ایک نئی تجویز بھی سامنے آئی ہے جو بسوں، لاریوں اور ٹیکسیوں کے مالکان کو اپنی گاڑیوں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرے گی، یہ تجویز یکم جولائی کو حکومت کو پیش کی گئی ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ کلین ائر زون کے حوالے سے گاڑیوں کو چارج کرنا چاہئے لیکن اس کا اطلاق صرف شہر کے مرکز تک ہی محدود ہو ،اس حوالے سے ، 30 جون کو بی بی سی ریڈیو مانچسٹر پر گفتگو کرتے ہوئے، اینڈی برنہم سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسی اسکیم کیوں نہیں تجویز کی جس پر کوئی چارج نہیں ہونا چاہئے تھا جس پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ مقامی حکام کے پاس قانونی سمت کے تحت چارجز متعارف کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا جس کے لیے 2024 تک ہوا کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت تھی، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ حکومت نے واضح طور پر الزامات کا مطالبہ نہیں کیا لیکن انہوں نے کہا کہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مقامی حکام کو ایک ایسی پوزیشن میں لے جایا گیا جہاں ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میئر نے کہا کہ ہماری 10 کونسلز کو 2024 تک ہوا کو صاف کرنے کے لیے قانونی ہدایت دی گئی تھی کہ برمنگھم بریڈ فورڈ اور پورٹ سمتھ کی طرح کا طریقہ کار اپنایا جائے ، انہوں نے شواہد کو دیکھا اور صرف ایک ہی طریقہ تھا کہ وہ چارجز کا استعمال کرتے ہوئے جلد سے ایسا کر سکتے تھے لہٰذا اب تکنیکی طور پر یہ کہنا درست ہے کہ حکومت نے واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ آپ کو چارجز کے ذریعے یہ کرنا ہے لیکن انہوں نے لوگوں پر عائد کردہ ڈیڈ لائن کی وجہ سے موثر طریقے سے ایسا کیا، انہوں نے مزید کہا کہ میں اس بات کو تسلیم کر تا ہوں کہ جس طرح سے عوامی رد عمل سامنے آیا ہے وہ تکنیکی طور پر درست ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی دوغلی پالیسی کا حصہ ہے کہ تمام تر الزامات کا سامنا کرنے کیلئے مقامی حکام کو سامنے لایا گیا ہے تاکہ انہیں عوام کی جانب سے بڑھتے ہوئے دبائو کا سامنا نہ کرنا پڑے۔