کیا آسٹریلیا کی ’آؤٹ بیک وے‘ دنیا کی سب سے ویران سڑک ہے؟
کوینزلینڈ،جون۔مغربی آسٹریلیا میں لیورٹن سے دور دراز واقع کوینزلینڈ کے علاقے وِنٹن کو جانے والی 2700 کلومیٹر لمبی ’آؤٹب بیک وے‘ ایک تِرچھی سڑک ہے جو دوسری شاہراہوں کے مقابلے میں کئی ہفتوں کا سفر بچاتی ہے۔جب بھی کوئی روڈ ٹرین (لمبے ٹرک) لیورٹن سے گزرتی ہے تو قصبے میں زندگی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ ورنہ یہاں سناٹے کا راج رہتا ہے۔ پکی سڑک مضافاتی حدود کو چھونے سے پہلے ہی سرخ ریت میں گْم ہو جاتی ہے۔’آؤٹ بیک وے‘ لیورٹن سے شروع ہوتی ہے۔ یہ قصبہ وْنگوتھا اور ٹجولکانٹی قبائل کی آبائی زمینوں پر قائم کیا گیا تھا۔ مغربی آسٹریلیا میں اس سڑک کو گریٹ سینٹر روڈ بھی کہتے ہیں۔ یہ بر اعظم کے بیچ سے گزرتی ہے اور دنیا کی عظیم شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے۔ 1950 میں بننے والی یہ سڑک اپنے وقت کا بڑا کارنامہ سمجھی جاتی تھی۔کوئی 70 برس بعد یہاں کھڑے ہو کر نظر آتا ہے کہ سفر کے دوران کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا: گریٹ بیونڈ وِزیٹر سینٹر، ایکسپلورر ہال آف فیم، اور نا ختم ہونے والے صحرائی مناظر۔ اور سفر شروع کرنے سے پہلے یہ نا ممکن ہے کہ اپنی مہم کی شدت کا اندازہ نہ ہو۔آؤٹ بیک وے شمالی آسٹریلیا کو مغربی آسٹریلیا سے ملاتی ہے اور ملک کے قلب سے گزرتے ہوئے سب سے ڈائریکٹ روٹ ہے۔مغربی آسٹریلیا میں لیورٹن سے دور دراز واقع کوینزلینڈ کے علاقے وِنٹن کو جانے والی 2700 کلومیٹر لمبی یہ سڑک ملک کے قدیمی باشندوں کی کئی آبادیوں، اور الگ تھگ قائم نیشنل پارکوں کے پاس سے گزرتی ہے۔ راستے میں آرام اور کھانے پینے کے لیے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ بالآخر یہ پرت کو کائرنس سے ایک ترچھی لائن میں ملا کر ایک ایسا شارٹ کٹ روٹ فراہم کرتی ہے جس سے ہزاروں میل (اور کئی ہفتوں پر محیط) اس سفر سے نجات مل جاتی ہے جو ساحل کے ساتھ بنی ہوئی پکی سڑک پر چلنے سے درپیش ہوتا ہے۔ اس پر سفر کرنے سے آسٹریلیا کے دور دراز واقع علاقوں کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
مگر شاید یہ سب کچھ جلد ہی بدل جائے۔شروع میں جب میں نے لیورٹن سے اپنے سفر کا آغاز کیا تو یہ سمجھنا مشکل تھا کہ آؤٹ بیک وے پر سفر اتنی اہمیت کا حامل کیوں سمجھا جاتا ہے: سڑک پکی تھی، سفر آسان تھا، اور سفر پر نکلنے کے جوش نے اس حقیقت سے بے خبر کر دیا تھا کہ میں دنیا کی طویل اور سنسان ترین سڑک پر چل نکلا ہوں۔جہاں پکی سڑک ختم ہوتی ہے، وہاں سڑک کو تعمیر کرنے والے عملے اور ساز و سامان کی موجودگی اس شاہراہ کے مستقبل کا پتا دیتی ہے۔ شاید جلد ہی پوری آوٹ بیک وے پکی ہو جائے۔ اس وقت صرف 1200 کلو میٹر کا ٹکڑا ہی بچا ہی جس پر فور وھیل ڈرائیو ہی میں سفر بہتر ہے۔ بارشوں کے بعد اس حصے پر سفر نا مکمن ہو جاتا ہے۔ پکا ہونے پر یہ رکاوٹ تو دور ہو جائے گی مگر یہ سفر اپنی جاذبیت کھو دے گا۔ یہ سڑک، اور شاید صحرا بھی، ایک عظیم اور دائمی تبدیلی کی دہلیز پر کھڑے ہے۔میری نظریں ایک ٹرک پر پڑیں جو راستہ بند کیے کھڑا تھا۔ ساتھ ہی گرم گرم ایسفالٹ (تارکول) کی بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ تعمیراتی کمپنی کی ملازمہ بیو کارمائکل نے، جو سڑک کے کنارے ’سٹاپ‘ کا ایک غیر ضروری کتبہ ہاتھ میں لئے ہوئے کھڑی تھیں، کہا، ’آپ ترقی کو نہیں روک سکتے۔ جب یہ سب کام مکمل ہو جائے گا تو سفر کا دورانیہ خاصا کم ہو جائے گا۔ دور افتادہ قدیمی آبادیاں بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی ہیں۔‘لیورٹن چھوڑنے کے تقریباً 350 کلو میٹر بعد یہ شاہراہ آسٹریلیا کے ایک اور عظیم صحرا گِبسن کے پاس سے گزرتی ہے۔ ایک ایسی ویران جگہ پر ذہن میں اس خیال کا آنا فطری ہے کہ اگر سڑک سے اتر کر صحرا نوردی کا ارادہ باندھ لیا جائے تو کیسا رہے گا۔ اس کا جواب صحرا کے نام سے مل جاتا ہے۔ سنہ 1874 میں ایکسپلورر ارنسٹ جائلز نے اپنی مہم میں شامل آخری اونٹ پر ایلفرڈ گِبسن نامی ایک نوجوان کو مدد کی تلاش میں بھیجا تھا۔ جائلز تو کسی طرح بچ گئے مگر گِبسن کو پھر کسی نے نہیں دیکھا۔جس علاقے سے میں گزر رہا تھا وہ پرے سے بھی کہیں دور تھا۔یولورو اور کیٹا ٹجوٹا کے علاقے کو بنیادی سہولیات پہنچانے والے قصبے یولارا کی پکی سڑک لیسیٹر ہائی وے نعمت اور زحمت دونوں ثابت ہوئی: صحرائی سفر تو تیزی سے کٹ گیا، مگر پھر خیال آیا کہ اس تیزی میں ہم کیا کچھ نظر انداز کر گئے ہوں گے۔ جنوب میں ماؤنٹ کونور (چوٹی) اپنا سر نکالے نظر آئی۔ مشرق کی جانب سے آنے والے جنھوں نے ابھی یورولو کو افق پر ابھرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا دنگ رہ گئے، وہ اسے ایک مشہور سنگ میل سمجھے۔ قدیمی باشندوں کی داستانوں میں ہے کہ آئس مین (برفانی انسان) ماؤنٹ کونور پر بستے تھے، اور سرد راتوں میں اپنی آمد کی نشانی کے طور پر زمین کو کہْر میں ڈھانپ جاتے تھے۔اینتھنی پیٹرک کا تعلق قدیمی باشندوں کے ایک قبیلے سے ہے جو اٹیٹجیرے میں آباد ہے۔ ان کے نزدیک وہاں سے اچھی سڑک کے گزرنے کا مطلب ہے ان کے لوگوں کے لیے سستے سامان کی دستیابی، حادثات میں کمی اور ان کی برادری کے لیے صحت عامہ کی بہتر سہولیات، اور یقیناً ان سیاحوں کی آمد میں اضافہ جو ان کا روایتی طرزِ زندگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا، ’جب سیاح آئیں گے تو ہمیں خوشی ہوگی، ہم ان کا خیر مقدم کریں گے، اس سے دو طرفہ خیر سگالی اور ثقافتوں کے درمیان باہمی احترام کو فروغ ملے گا۔‘پکی سڑکیں صحرائی سفر کے آغاز کی بجائے اختتام پر زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ ایک پورے بر اعظم کو عبور کر لینے کا جوش باؤلیا کے قصبے تک ساتھ رہا۔ یہاں کے مشروبات گھروں اور زندگی کی آسائشوں کے بیچ ہوائی چکیوں کی گڑگڑاہٹ میں غروب آفتاب کا نظارہ باؤلیا کے صحیح معنوں میں دور افتادہ قصبہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہاں زندگی کا دھیماپن اس حقیقت سے عیاں ہے کہ مقامی لوگ گپ شپ کے لیے اپنی گاڑیاں مرکزی سڑک کے بیچ روک لیتے ہیں۔یہاں سے باؤلیا اور وِنٹن کو ملانے والی سڑک کا آغاز ہوتا ہے جو صحرائی نشیب و فراز میں بل کھاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ میری آخری منزل وِنٹن تھی جہاں افق پر اونچی عمارتیں نمودار ہوتی ہے۔ یہ علامت تھی کہ آگے گہما گہمی سے بھر پور زندگی پائی جاتی ہے۔ میں نے مڑ کر پھر سے صحرا نوردی کرنے کی اپنی خواہش کو بڑی مشکل سے دبایا۔